41. ہائے، بابل دشمن کے قبضے میں آ گیا ہے! جس کی تعریف پوری دنیا کرتی تھی وہ چھین لیا گیا ہے! اب اُسے دیکھ کر قوموں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
42. سمندر بابل پر چڑھ آیا ہے، اُس کی گرجتی لہروں نے اُسے ڈھانپ لیا ہے۔
43. اُس کے شہر ریگستان بن گئے ہیں، اب چاروں طرف خشک اور ویران بیابان ہی نظر آتا ہے۔ نہ کوئی اُس میں رہتا، نہ اُس میں سے گزرتا ہے۔
44. مَیں بابل کے دیوتا بیل کو سزا دے کر اُس کے منہ سے وہ کچھ نکال دوں گا جو اُس نے ہڑپ کر لیا تھا۔ اب سے دیگر اقوام جوق در جوق اُس کے پاس نہیں آئیں گی، کیونکہ بابل کی فصیل بھی گر گئی ہے۔
45. اے میری قوم، بابل سے نکل آ! ہر ایک اپنی جان بچانے کے لئے وہاں سے بھاگ جائے، کیونکہ رب کا شدید غضب اُس پر نازل ہونے کو ہے۔
46. جب افواہیں ملک میں پھیل جائیں تو ہمت مت ہارنا، نہ خوف کھانا۔ کیونکہ ہر سال کوئی اَور افواہ پھیلے گی، ظلم پر ظلم اور حکمران پر حکمران آتا رہے گا۔
47. کیونکہ وہ وقت قریب ہی ہے جب مَیں بابل کے بُتوں کو سزا دوں گا۔ تب پورے ملک کی بےحرمتی ہو جائے گی، اور اُس کے مقتول اُس کے بیچ میں گر کر پڑے رہیں گے۔
48. تب آسمان و زمین اور جو کچھ اُن میں ہے بابل پر شادیانہ بجائیں گے۔ کیونکہ تباہ کن دشمن شمال سے اُس پر حملہ کرنے آ رہا ہے۔“ یہ رب کا فرمان ہے۔
49. ”بابل نے پوری دنیا میں بےشمار لوگوں کو قتل کیا ہے، لیکن اب وہ خود ہلاک ہو جائے گا، اِس لئے کہ اُس نے اِتنے اسرائیلیوں کو قتل کیا ہے۔
50. اے تلوار سے بچے ہوئے اسرائیلیو، رُکے نہ رہو بلکہ روانہ ہو جاؤ! دُوردراز ملک میں رب کو یاد کرو، یروشلم کا بھی خیال کرو!
51. بےشک تم کہتے ہو، ’ہم شرمندہ ہیں، ہماری سخت رُسوائی ہوئی ہے، شرم کے مارے ہم نے اپنے منہ کو ڈھانپ لیا ہے۔ کیونکہ پردیسی رب کے گھر کی مُقدّس ترین جگہوں میں گھس آئے ہیں۔‘
52. لیکن رب فرماتا ہے کہ وہ وقت آنے والا ہے جب مَیں بابل کے بُتوں کو سزا دوں گا۔ تب اُس کے پورے ملک میں موت کے گھاٹ اُترنے والوں کی آہیں سنائی دیں گی۔
53. خواہ بابل کی طاقت آسمان تک اونچی کیوں نہ ہو، خواہ وہ اپنے بلند قلعے کو کتنا مضبوط کیوں نہ کرے توبھی وہ گر جائے گا۔ مَیں تباہ کرنے والے فوجی اُس پر چڑھا لاؤں گا۔“ یہ رب کا فرمان ہے۔