1. چھوٹا سموایل عیلی کے زیرِ نگرانی رب کے حضور خدمت کرتا تھا۔ اُن دنوں میں رب کی طرف سے بہت کم پیغام یا رویائیں ملتی تھیں۔
2. ایک رات عیلی جس کی آنکھیں اِتنی کمزور ہو گئی تھیں کہ دیکھنا تقریباً ناممکن تھا معمول کے مطابق سو گیا تھا۔
3. سموایل بھی لیٹ گیا تھا۔ وہ رب کے مقدِس میں سو رہا تھا جہاں عہد کا صندوق پڑا تھا۔ شمع دان اب تک رب کے حضور جل رہا تھا
6. لیکن رب نے ایک بار پھر آواز دی، ”سموایل!“ لڑکا دوبارہ اُٹھا اور عیلی کے پاس جا کر بولا، ”جی جناب، مَیں حاضر ہوں۔ آپ نے مجھے بُلایا؟“ عیلی نے جواب دیا، ”نہیں بیٹا، مَیں نے تمہیں نہیں بُلایا۔ دوبارہ سو جاؤ۔“
7. اُس وقت سموایل رب کی آواز نہیں پہچان سکتا تھا، کیونکہ ابھی اُسے رب کا کوئی پیغام نہیں ملا تھا۔
8. چنانچہ رب نے تیسری بار آواز دی، ”سموایل!“ ایک اَور مرتبہ سموایل اُٹھ کھڑا ہوا اور عیلی کے پاس جا کر بولا، ”جی جناب، مَیں حاضر ہوں۔ آپ نے مجھے بُلایا؟“ یہ سن کر عیلی نے جان لیا کہ رب سموایل سے ہم کلام ہو رہا ہے۔
9. اِس لئے اُس نے لڑکے کو بتایا، ”اب دوبارہ لیٹ جاؤ، لیکن اگلی دفعہ جب آواز سنائی دے تو تمہیں کہنا ہے، ’اے رب، فرما۔ تیرا خادم سن رہا ہے‘۔“سموایل ایک بار پھر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔
10. رب آ کر وہاں کھڑا ہوا اور پہلے کی طرح پکارا، ”سموایل! سموایل!“ لڑکے نے جواب دیا، ”اے رب، فرما۔ تیرا خادم سن رہا ہے۔“
11. پھر رب سموایل سے ہم کلام ہوا، ”دیکھ، مَیں اسرائیل میں اِتنا ہول ناک کام کروں گا کہ جسے بھی اِس کی خبر ملے گی اُس کے کان بجنے لگیں گے۔
12. اُس وقت مَیں شروع سے لے کر آخر تک وہ تمام باتیں پوری کروں گا جو مَیں نے عیلی اور اُس کے گھرانے کے بارے میں کی ہیں۔
13. مَیں عیلی کو آگاہ کر چکا ہوں کہ اُس کا گھرانا ہمیشہ تک میری عدالت کا نشانہ بنا رہے گا۔ کیونکہ گو اُسے صاف معلوم تھا کہ اُس کے بیٹے اپنی غلط حرکتوں سے میرا غضب اپنے آپ پر لائیں گے توبھی اُس نے اُنہیں کرنے دیا اور نہ روکا۔
14. مَیں نے قَسم کھائی ہے کہ عیلی کے گھرانے کا قصور نہ ذبح اور نہ غلہ کی کسی قربانی سے دُور کیا جا سکتا ہے بلکہ اِس کا کفارہ کبھی بھی نہیں دیا جا سکے گا!“
15. اِس کے بعد سموایل صبح تک اپنے بستر پر لیٹا رہا۔ پھر وہ معمول کے مطابق اُٹھا اور رب کے گھر کے دروازے کھول دیئے۔ وہ عیلی کو اپنی رویا بتانے سے ڈرتا تھا،
16. لیکن عیلی نے اُسے بُلا کر کہا، ”سموایل، میرے بیٹے!“ سموایل نے جواب دیا، ”جی، مَیں حاضر ہوں۔“