4. سموایل مان گیا۔ جب وہ بیت لحم پہنچ گیا تو لوگ چونک اُٹھے۔ لرزتے لرزتے شہر کے بزرگ اُس سے ملنے آئے اور پوچھا، ”خیریت تو ہے کہ آپ ہمارے پاس آ گئے ہیں؟“
5. سموایل نے اُنہیں تسلی دے کر کہا، ”خیریت ہے۔ مَیں رب کے حضور قربانی پیش کرنے کے لئے آیا ہوں۔ اپنے آپ کو رب کے لئے مخصوص و مُقدّس کریں اور پھر میرے ساتھ قربانی کی ضیافت میں شریک ہو جائیں۔“ سموایل نے یسّی اور اُس کے بیٹوں کو بھی دعوت دی اور اُنہیں اپنے آپ کو مخصوص و مُقدّس کرنے کو کہا۔
6. جب یسّی اپنے بیٹوں سمیت قربانی کی ضیافت کے لئے آیا تو سموایل کی نظر اِلیاب پر پڑی۔ اُس نے سوچا، ”بےشک یہ وہ ہے جسے رب مسح کر کے بادشاہ بنانا چاہتا ہے۔“
7. لیکن رب نے فرمایا، ”اِس کی شکل و صورت اور لمبے قد سے متاثر نہ ہو، کیونکہ یہ مجھے نامنظور ہے۔ مَیں انسان کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ کیونکہ انسان ظاہری صورت پر غور کر کے فیصلہ کرتا ہے جبکہ رب کو ہر ایک کا دل صاف صاف نظر آتا ہے۔“
8. پھر یسّی نے اپنے دوسرے بیٹے ابی نداب کو بُلا کر سموایل کے سامنے سے گزرنے دیا۔ سموایل بولا، ”نہیں، رب نے اِسے بھی نہیں چنا۔“
9. اِس کے بعد یسّی نے تیسرے بیٹے سمّہ کو پیش کیا۔ لیکن یہ بھی نہیں چنا گیا تھا۔
10. یوں یسّی نے اپنے سات بیٹوں کو ایک ایک کر کے سموایل کے سامنے سے گزرنے دیا۔ اِن میں سے کوئی رب کا چنا ہوا بادشاہ نہ نکلا۔
11. آخرکار سموایل نے پوچھا، ”اِن کے علاوہ کوئی اَور بیٹا تو نہیں ہے؟“ یسّی نے جواب دیا، ”سب سے چھوٹا بیٹا ابھی باقی رہ گیا ہے، لیکن وہ باہر کھیتوں میں بھیڑبکریوں کی نگرانی کر رہا ہے۔“ سموایل نے کہا، ”اُسے فوراً بُلا لیں۔ اُس کے آنے تک ہم کھانے کے لئے نہیں بیٹھیں گے۔“
12. چنانچہ یسّی چھوٹے کو بُلا کر اندر لے آیا۔ یہ بیٹا گورا تھا۔ اُس کی آنکھیں خوب صورت اور شکل و صورت قابلِ تعریف تھی۔ رب نے سموایل کو بتایا، ”یہی ہے۔ اُٹھ کر اِسے مسح کر۔“
13. سموایل نے تیل سے بھرا ہوا مینڈھے کا سینگ لے کر اُسے داؤد کے سر پر اُنڈیل دیا۔ سب بھائی موجود تھے۔ اُسی وقت رب کا روح داؤد پر نازل ہوا اور اُس کی ساری عمر اُس پر ٹھہرا رہا۔ پھر سموایل رامہ واپس چلا گیا۔
14. لیکن رب کے روح نے ساؤل کو چھوڑ دیا تھا۔ اِس کے بجائے رب کی طرف سے ایک بُری روح اُسے دہشت زدہ کرنے لگی۔
15. ایک دن ساؤل کے ملازموں نے اُس سے کہا، ”اللہ کی طرف سے ایک بُری روح آپ کے دل میں دہشت پیدا کر رہی ہے۔