5. کیا آپ کلامِ مُقدّس کی یہ حوصلہ افزا بات بھول گئے ہیں جو آپ کو اللہ کے فرزند ٹھہرا کر بیان کرتی ہے،”میرے بیٹے، رب کی تربیت کو حقیر مت جان،جب وہ تجھے ڈانٹے تو نہ بےدل ہو۔
6. کیونکہ جو رب کو پیارا ہے اُس کی وہ تادیب کرتا ہے،وہ ہر ایک کو سزا دیتا ہےجسے اُس نے بیٹے کے طور پر قبول کیا ہے۔“
7. اپنی مصیبتوں کو الٰہی تربیت سمجھ کر برداشت کریں۔ اِس میں اللہ آپ سے بیٹوں کا سا سلوک کر رہا ہے۔ کیا کبھی کوئی بیٹا تھا جس کی اُس کے باپ نے تربیت نہ کی؟
8. اگر آپ کی تربیت سب کی طرح نہ کی جاتی تو اِس کا مطلب یہ ہوتا کہ آپ اللہ کے حقیقی فرزند نہ ہوتے بلکہ ناجائز اولاد۔
9. دیکھیں، جب ہمارے انسانی باپ نے ہماری تربیت کی تو ہم نے اُس کی عزت کی۔ اگر ایسا ہے تو کتنا زیادہ ضروری ہے کہ ہم اپنے روحانی باپ کے تابع ہو کر زندگی پائیں۔
10. ہمارے انسانی باپوں نے ہمیں اپنی سمجھ کے مطابق تھوڑی دیر کے لئے تربیت دی۔ لیکن اللہ ہماری ایسی تربیت کرتا ہے جو فائدے کا باعث ہے اور جس سے ہم اُس کی قدوسیت میں شریک ہونے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
11. جب ہماری تربیت کی جاتی ہے تو اُس وقت ہم خوشی محسوس نہیں کرتے بلکہ غم۔ لیکن جن کی تربیت اِس طرح ہوتی ہے وہ بعد میں راست بازی اور سلامتی کی فصل کاٹتے ہیں۔
12. چنانچہ اپنے تھکے ہارے بازوؤں اور کمزور گھٹنوں کو مضبوط کریں۔
13. اپنے راستے چلنے کے قابل بنا دیں تاکہ جو عضو لنگڑا ہے اُس کا جوڑ اُتر نہ جائے بلکہ شفا پائے۔
14. سب کے ساتھ مل کر صلح سلامتی اور قدوسیت کے لئے جد و جہد کرتے رہیں، کیونکہ جو مُقدّس نہیں ہے وہ خداوند کو کبھی نہیں دیکھے گا۔
15. اِس پر دھیان دینا کہ کوئی اللہ کے فضل سے محروم نہ رہے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی کڑوی جڑ پھوٹ نکلے اور بڑھ کر تکلیف کا باعث بن جائے اور بہتوں کو ناپاک کر دے۔
16. دھیان دیں کہ کوئی بھی زناکار یا عیسَو جیسا دنیاوی شخص نہ ہو جس نے ایک ہی کھانے کے عوض اپنے وہ موروثی حقوق بیچ ڈالے جو اُسے بڑے بیٹے کی حیثیت سے حاصل تھے۔
17. آپ کو بھی معلوم ہے کہ بعد میں جب وہ یہ برکت وراثت میں پانا چاہتا تھا تو اُسے رد کیا گیا۔ اُس وقت اُسے توبہ کا موقع نہ ملا حالانکہ اُس نے آنسو بہا بہا کر یہ برکت حاصل کرنے کی کوشش کی۔
18. آپ اُس طرح اللہ کے حضور نہیں آئے جس طرح اسرائیلی جب وہ سینا پہاڑ پر پہنچے، اُس پہاڑ کے پاس جسے چھوا جا سکتا تھا۔ وہاں آگ بھڑک رہی تھی، اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور آندھی چل رہی تھی۔