6. بھسم ہونے والی قربانیاں اور گناہ کی قربانیاںتجھے پسند نہیں تھیں۔
7. پھر مَیں بول اُٹھا، ’اے خدا، مَیں حاضر ہوںتاکہ تیری مرضی پوری کروں،جس طرح میرے بارے میں کلامِ مُقدّس میں لکھا ہے‘۔“
8. پہلے مسیح کہتا ہے، ”نہ تُو قربانیاں، نذریں، بھسم ہونے والی قربانیاں یا گناہ کی قربانیاں چاہتا تھا، نہ اُنہیں پسند کرتا تھا“ گو شریعت اِنہیں پیش کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
9. پھر وہ فرماتا ہے، ”مَیں حاضر ہوں تاکہ تیری مرضی پوری کروں۔“ یوں وہ پہلا نظام ختم کر کے اُس کی جگہ دوسرا نظام قائم کرتا ہے۔
10. اور اُس کی مرضی پوری ہو جانے سے ہمیں عیسیٰ مسیح کے بدن کے وسیلے سے مخصوص و مُقدّس کیا گیا ہے۔ کیونکہ اُسے ایک ہی بار سدا کے لئے ہمارے لئے قربان کیا گیا۔
11. ہر امام روز بہ روز مقدِس میں کھڑا اپنی خدمت کے فرائض ادا کرتا ہے۔ روزانہ اور بار بار وہ وہی قربانیاں پیش کرتا رہتا ہے جو کبھی بھی گناہوں کو دُور نہیں کر سکتیں۔
12. لیکن مسیح نے گناہوں کو دُور کرنے کے لئے ایک ہی قربانی پیش کی، ایک ایسی قربانی جس کا اثر سدا کے لئے رہے گا۔ پھر وہ اللہ کے دہنے ہاتھ بیٹھ گیا۔
13. وہیں وہ اب انتظار کرتا ہے جب تک اللہ اُس کے دشمنوں کو اُس کے پاؤں کی چوکی نہ بنا دے۔
14. یوں اُس نے ایک ہی قربانی سے اُنہیں سدا کے لئے کامل بنا دیا ہے جنہیں مُقدّس کیا جا رہا ہے۔
15. روح القدس بھی ہمیں اِس کے بارے میں گواہی دیتا ہے۔ پہلے وہ کہتا ہے،
16. ”رب فرماتا ہے کہجو نیا عہد مَیں اُن دنوں کے بعد اُن سے باندھوں گااُس کے تحت مَیں اپنی شریعتاُن کے دلوں میں ڈال کراُن کے ذہنوں پر کندہ کروں گا۔“
17. پھر وہ کہتا ہے، ”اُس وقت سے مَیں اُن کے گناہوں اور بُرائیوں کو یاد نہیں کروں گا۔“
18. اور جہاں اِن گناہوں کی معافی ہوئی ہے وہاں گناہوں کو دُور کرنے کی قربانیوں کی ضرورت ہی نہیں رہی۔