22. تب یوآب زمِین پر اَوندھا ہو کر گِرا اور سِجدہ کِیا اور بادشاہ کو مُبارک باد دی اور یوآب کہنے لگا آج تیرے بندہ کو یقِین ہُؤا اَے میرے مالِک بادشاہ کہ مُجھ پر تیرے کرم کی نظر ہے اِس لِئے کہ بادشاہ نے اپنے خادِم کی عرض پُوری کی۔
23. پِھر یوآب اُٹھا اور جسُور کو گیا اور ابی سلو م کو یروشلیِم میں لے آیا۔
24. تب بادشاہ نے فرمایا وہ اپنے گھر جائے اور میرا مُنہ نہ دیکھے ۔ سو ابی سلو م اپنے گھر گیا اور وہ بادشاہ کا مُنہ دیکھنے نہ پایا۔
25. اور سارے اِسرا ئیل میں کوئی شخص ابی سلو م کی طرح اُس کے حُسن کے سبب سے تعرِیف کے قابِل نہ تھا کیونکہ اُس کے پاؤں کے تلوے سے سر کے چاند تک اُس میں کوئی عَیب نہ تھا۔
26. اور جب وہ اپنا سر مُنڈواتا تھا (کیونکہ ہر سال کے آخِر میں وہ اُسے مُنڈواتا تھا اِس لِئے کہ اُس کے بال گھنے تھے سو وہ اُن کو مُنڈواتا تھا) تو اپنے سر کے بال وزن میں شاہی تول کے مُطابِق دو سَو مِثقال کے برابر پاتا تھا۔
27. اور ابی سلو م سے تِین بیٹے پَیدا ہُوئے اور ایک بیٹی جِس کا نام تمر تھا ۔ وہ بُہت خُوب صُورت عَورت تھی۔
28. اور ابی سلو م پُورے دو برس یروشلیِم میں رہا اور بادشاہ کا مُنہ نہ دیکھا۔
29. سو ابی سلو م نے یوآب کو بُلوایا تاکہ اُسے بادشاہ کے پاس بھیجے پر اُس نے اُس کے پاس آنے سے انِکار کِیا اور اُس نے دوبارہ بُلوایا لیکن وہ نہ آیا۔
30. اِس لِئے اُس نے اپنے مُلازِموں سے کہا کہ دیکھو یوآب کا کھیت میرے کھیت سے لگا ہے اور اُس میں جَو ہیں سو جا کر اُس میں آگ لگا دو اور ابی سلو م کے مُلازِموں نے اُس کھیت میں آگ لگا دی۔
31. تب یوآب اُٹھا اور ابی سلو م کے پاس اُس کے گھر جا کر اُس سے کہنے لگا تیرے خادِموں نے میرے کھیت میں آگ کیوں لگا دی؟۔
32. ابی سلو م نے یوآب کو جواب دِیا کہ دیکھ مَیں نے تُجھے کہلا بھیجا کہ یہاں آ تاکہ مَیں تُجھے بادشاہ کے پاس یہ کہنے کو بھیجُوں کہ مَیں جسُور سے کیوں یہاں آیا؟ میرے لِئے اب تک وہِیں رہنا بِہتر ہوتا ۔ سو اب بادشاہ مُجھے اپنا دِیدار دے اور اگر مُجھ میں کوئی بدی ہو تو وہ مُجھے مار ڈالے۔
33. تب یوآب نے بادشاہ کے پاس جا کر اُسے یہ پَیغام دِیا اور جب اُس نے ابی سلو م کو بُلوایا تب وہ بادشاہ کے پاس آیا اور بادشاہ کے آگے زمِین پر سرنِگُوں ہو گیا اور بادشاہ نے ابی سلو م کو بوسہ دِیا۔