15. بادشاہ کے ملازموں نے جواب دیا، ”جو بھی فیصلہ ہمارے آقا اور بادشاہ کریں ہم حاضر ہیں۔“
16. بادشاہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ روانہ ہوا۔ صرف دس داشتائیں محل کو سنبھالنے کے لئے پیچھے رہ گئیں۔
17. جب داؤد اپنے تمام لوگوں کے ساتھ شہر کے آخری گھر تک پہنچا تو وہ رُک گیا۔
18. اُس نے اپنے تمام پیروکاروں کو آگے نکلنے دیا، پہلے شاہی دستے کریتی و فلیتی کو، پھر اُن 600 جاتی آدمیوں کو جو اُس کے ساتھ جات سے یہاں آئے تھے اور آخر میں باقی تمام لوگوں کو۔
19. جب فلستی شہر جات کا آدمی اِتّی داؤد کے سامنے سے گزرنے لگا تو بادشاہ اُس سے مخاطب ہوا، ”آپ ہمارے ساتھ کیوں جائیں؟ نہیں، واپس چلے جائیں اور نئے بادشاہ کے ساتھ رہیں۔ آپ تو غیرملکی ہیں اور اِس لئے اسرائیل میں رہتے ہیں کہ آپ کو جلاوطن کر دیا گیا ہے۔
20. آپ کو یہاں آئے تھوڑی دیر ہوئی ہے، تو کیا مناسب ہے کہ آپ کو دوبارہ میری وجہ سے کبھی اِدھر کبھی اُدھر گھومنا پڑے؟ کیا پتا ہے کہ مجھے کہاں کہاں جانا پڑے۔ اِس لئے واپس چلے جائیں، اور اپنے ہم وطنوں کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں۔ رب آپ پر اپنی مہربانی اور وفاداری کا اظہار کرے۔“
21. لیکن اِتّی نے اعتراض کیا، ”میرے آقا، رب اور بادشاہ کی حیات کی قَسم، مَیں آپ کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا، خواہ مجھے اپنی جان بھی قربان کرنی پڑے۔“
22. تب داؤد مان گیا۔ ”چلو، پھر آگے نکلیں!“ چنانچہ اِتّی اپنے لوگوں اور اُن کے خاندانوں کے ساتھ آگے نکلا۔
23. آخر میں داؤد نے وادیٔ قدرون کو پار کر کے ریگستان کی طرف رُخ کیا۔ گرد و نواح کے تمام لوگ بادشاہ کو اُس کے پیروکاروں سمیت روانہ ہوتے ہوئے دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
24. صدوق امام اور تمام لاوی بھی داؤد کے ساتھ شہر سے نکل آئے تھے۔ لاوی عہد کا صندوق اُٹھائے چل رہے تھے۔ اب اُنہوں نے اُسے شہر سے باہر زمین پر رکھ دیا، اور ابیاتر وہاں قربانیاں چڑھانے لگا۔ لوگوں کے شہر سے نکلنے کے پورے عرصے کے دوران وہ قربانیاں چڑھاتا رہا۔
25. پھر داؤد صدوق سے مخاطب ہوا، ”اللہ کا صندوق شہر میں واپس لے جائیں۔ اگر رب کی نظرِ کرم مجھ پر ہوئی تو وہ کسی دن مجھے شہر میں واپس لا کر عہد کے صندوق اور اُس کی سکونت گاہ کو دوبارہ دیکھنے کی اجازت دے گا۔
26. لیکن اگر وہ فرمائے کہ تُو مجھے پسند نہیں ہے، تو مَیں یہ بھی برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ وہ میرے ساتھ وہ کچھ کرے جو اُسے مناسب لگے۔
27. جہاں تک آپ کا تعلق ہے، اپنے بیٹے اخی معض کو ساتھ لے کر صحیح سلامت شہر میں واپس چلے جائیں۔ ابیاتر اور اُس کا بیٹا یونتن بھی ساتھ جائیں۔
28. مَیں خود ریگستان میں دریائے یردن کی اُس جگہ رُک جاؤں گا جہاں ہم آسانی سے دریا کو پار کر سکیں گے۔ وہاں آپ مجھے یروشلم کے حالات کے بارے میں پیغام بھیج سکتے ہیں۔ مَیں آپ کے انتظار میں رہوں گا۔“
29. چنانچہ صدوق اور ابیاتر عہد کا صندوق شہر میں واپس لے جا کر وہیں رہے۔
30. داؤد روتے روتے زیتون کے پہاڑ پر چڑھنے لگا۔ اُس کا سر ڈھانپا ہوا تھا، اور وہ ننگے پاؤں چل رہا تھا۔ باقی سب کے سر بھی ڈھانپے ہوئے تھے، سب روتے روتے چڑھنے لگے۔
31. راستے میں داؤد کو اطلاع دی گئی، ”اخی تُفل بھی ابی سلوم کے ساتھ مل گیا ہے۔“ یہ سن کر داؤد نے دعا کی، ”اے رب، بخش دے کہ اخی تُفل کے مشورے ناکام ہو جائیں۔“
32. چلتے چلتے داؤد پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گیا جہاں اللہ کی پرستش کی جاتی تھی۔ وہاں حوسی ارکی اُس سے ملنے آیا۔ اُس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، اور سر پر خاک تھی۔