24. وہ داؤد بادشاہ کے پاس بھی گیا اور کہا، ”اِن دنوں میں مَیں اپنی بھیڑوں کے بال کترا رہا ہوں۔ بادشاہ اور اُن کے افسروں کو بھی میرے ساتھ خوشی منانے کی دعوت ہے۔“
25. لیکن داؤد نے انکار کیا، ”نہیں، میرے بیٹے، ہم سب تو نہیں آ سکتے۔ اِتنے لوگ آپ کے لئے بوجھ کا باعث بن جائیں گے۔“ ابی سلوم بہت اصرار کرتا رہا، لیکن داؤد نے دعوت کو قبول نہ کیا بلکہ اُسے برکت دے کر رُخصت کرنا چاہتا تھا۔
26. آخرکار ابی سلوم نے درخواست کی، ”اگر آپ ہمارے ساتھ جا نہ سکیں تو پھر کم از کم میرے بھائی امنون کو آنے دیں۔“ بادشاہ نے پوچھا، ”خاص کر امنون کو کیوں؟“
27. لیکن ابی سلوم اِتنا زور دیتا رہا کہ داؤد نے امنون کو باقی بیٹوں سمیت بعل حصور جانے کی اجازت دے دی۔
28. ضیافت سے پہلے ابی سلوم نے اپنے ملازموں کو حکم دیا، ”سنیں! جب امنون مَے پی پی کر خوش ہو جائے گا تو مَیں آپ کو امنون کو مارنے کا حکم دوں گا۔ پھر آپ کو اُسے مار ڈالنا ہے۔ ڈریں مت، کیونکہ مَیں ہی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے۔ مضبوط اور دلیر ہوں!“
29. ملازموں نے ایسا ہی کیا۔ اُنہوں نے امنون کو مار ڈالا۔ یہ دیکھ کر بادشاہ کے دوسرے بیٹے اُٹھ کر اپنے خچروں پر سوار ہوئے اور بھاگ گئے۔
30. وہ ابھی راستے میں ہی تھے کہ افواہ داؤد تک پہنچی، ”ابی سلوم نے آپ کے تمام بیٹوں کو قتل کر دیا ہے۔ ایک بھی نہیں بچا۔“
31. بادشاہ اُٹھا اور اپنے کپڑے پھاڑ کر فرش پر لیٹ گیا۔ اُس کے درباری بھی دُکھ میں اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر اُس کے پاس کھڑے رہے۔
32. پھر داؤد کا بھتیجا یوندب بول اُٹھا، ”میرے آقا، آپ نہ سوچیں کہ اُنہوں نے تمام شہزادوں کو مار ڈالا ہے۔ صرف امنون مر گیا ہو گا، کیونکہ جب سے اُس نے تمر کی عصمت دری کی اُس وقت سے ابی سلوم کا یہی ارادہ تھا۔
33. لہٰذا اِس خبر کو اِتنی اہمیت نہ دیں کہ تمام بیٹے ہلاک ہوئے ہیں۔ صرف امنون مر گیا ہو گا۔“
34. اِتنے میں ابی سلوم فرار ہو گیا تھا۔ پھر یروشلم کی فصیل پر کھڑے پہرے دار نے اچانک دیکھا کہ مغرب سے لوگوں کا بڑا گروہ شہر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ پہاڑی کے دامن میں چلے آ رہے تھے۔
35. تب یوندب نے بادشاہ سے کہا، ”لو، بادشاہ کے بیٹے آ رہے ہیں، جس طرح آپ کے خادم نے کہا تھا۔“
36. وہ ابھی اپنی بات ختم کر ہی رہا تھا کہ شہزادے اندر آئے اور خوب رو پڑے۔ بادشاہ اور اُس کے افسر بھی رونے لگے۔
37. داؤد بڑی دیر تک امنون کا ماتم کرتا رہا۔ لیکن ابی سلوم نے فرار ہو کر جسور کے بادشاہ تلمی بن عمی ہود کے پاس پناہ لی جو اُس کا نانا تھا۔