22. گو اُس نے فرمایا تھا کہ یہاں نہ کچھ کھا اور نہ کچھ پی توبھی تُو نے واپس آ کر یہاں روٹی کھائی اور پانی پیا ہے۔ اِس لئے مرتے وقت تجھے تیرے باپ دادا کی قبر میں دفنایا نہیں جائے گا‘۔“
23. کھانے کے بعد بزرگ کے گدھے پر زِین کسا گیا اور مردِ خدا کو اُس پر بٹھایا گیا۔
24. وہ دوبارہ روانہ ہوا تو راستے میں ایک شیرببر نے اُس پر حملہ کر کے اُسے مار ڈالا۔ لیکن اُس نے لاش کو نہ چھیڑا بلکہ وہ وہیں راستے میں پڑی رہی جبکہ گدھا اور شیر دونوں ہی اُس کے پاس کھڑے رہے۔
25. کچھ لوگ وہاں سے گزرے۔ جب اُنہوں نے لاش کو راستے میں پڑے اور شیرببر کو اُس کے پاس کھڑے دیکھا تو اُنہوں نے بیت ایل جہاں بزرگ نبی رہتا تھا آ کر لوگوں کو اطلاع دی۔
26. جب بزرگ کو خبر ملی تو اُس نے کہا، ”وہی مردِ خدا ہے جس نے رب کے فرمان کی خلاف ورزی کی۔ اب وہ کچھ ہوا ہے جو رب نے اُسے فرمایا تھا یعنی اُس نے اُسے شیرببر کے حوالے کر دیا تاکہ وہ اُسے پھاڑ کر مار ڈالے۔“
27. بزرگ نے اپنے بیٹوں کو گدھے پر زِین کسنے کا حکم دیا،
28. اور وہ اُس پر بیٹھ کر روانہ ہوا۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ لاش اب تک راستے میں پڑی ہے اور گدھا اور شیر دونوں ہی اُس کے پاس کھڑے ہیں۔ شیرببر نے نہ لاش کو چھیڑا اور نہ گدھے کو پھاڑا تھا۔
29. بزرگ نبی نے لاش کو اُٹھا کر اپنے گدھے پر رکھا اور اُسے بیت ایل لایا تاکہ اُس کا ماتم کر کے اُسے وہاں دفنائے۔
30. اُس نے لاش کو اپنی خاندانی قبر میں دفن کیا، اور لوگوں نے ”ہائے، میرے بھائی“ کہہ کر اُس کا ماتم کیا۔
31. جنازے کے بعد بزرگ نبی نے اپنے بیٹوں سے کہا، ”جب مَیں کوچ کر جاؤں گا تو مجھے مردِ خدا کی قبر میں دفنانا۔ میری ہڈیوں کو اُس کی ہڈیوں کے پاس ہی رکھیں۔
32. کیونکہ جو باتیں اُس نے رب کے حکم پر بیت ایل کی قربان گاہ اور سامریہ کے شہروں کی اونچی جگہوں کے مندروں کے بارے میں کی ہیں وہ یقیناً پوری ہو جائیں گی۔“
33. اِن واقعات کے باوجود یرُبعام اپنی شریر حرکتوں سے باز نہ آیا۔ عام لوگوں کو امام بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔ جو کوئی بھی امام بننا چاہتا اُسے وہ اونچی جگہوں کے مندروں میں خدمت کرنے کے لئے مخصوص کرتا تھا۔
34. یرُبعام کے گھرانے کے اِس سنگین گناہ کی وجہ سے وہ آخرکار تباہ ہوا اور رُوئے زمین پر سے مٹ گیا۔