31. اب دنیا کی عدالت کرنے کا وقت آ گیا ہے، اب دنیا کے حکمران کو نکال دیا جائے گا۔
32. اور مَیں خود زمین سے اونچے پر چڑھائے جانے کے بعد سب کو اپنے پاس کھینچ لوں گا۔“
33. اِن الفاظ سے اُس نے اِس طرف اشارہ کیا کہ وہ کس طرح کی موت مرے گا۔
34. ہجوم بول اُٹھا، ”کلامِ مُقدّس سے ہم نے سنا ہے کہ مسیح ابد تک قائم رہے گا۔ تو پھر آپ کی یہ کیسی بات ہے کہ ابنِ آدم کو اونچے پر چڑھایا جانا ہے؟ آخر ابنِ آدم ہے کون؟“
35. عیسیٰ نے جواب دیا، ”نور تھوڑی دیر اَور تمہارے پاس رہے گا۔ جتنی دیر وہ موجود ہے اِس نور میں چلتے رہو تاکہ تاریکی تم پر چھا نہ جائے۔ جو اندھیرے میں چلتا ہے اُسے نہیں معلوم کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔
36. نور کے تمہارے پاس سے چلے جانے سے پہلے پہلے اُس پر ایمان لاؤ تاکہ تم نور کے فرزند بن جاؤ۔“یہ کہنے کے بعد عیسیٰ چلا گیا اور غائب ہو گیا۔
37. اگرچہ عیسیٰ نے یہ تمام الٰہی نشان اُن کے سامنے ہی دکھائے توبھی وہ اُس پر ایمان نہ لائے۔
38. یوں یسعیاہ نبی کی پیش گوئی پوری ہوئی،”اے رب، کون ہمارے پیغام پر ایمان لایا؟اور رب کی قدرت کس پر ظاہر ہوئی؟“
39. چنانچہ وہ ایمان نہ لا سکے، جس طرح یسعیاہ نبی نے کہیں اَور فرمایا ہے،
40. ”اللہ نے اُن کی آنکھوں کو اندھااور اُن کے دل کو بےحس کر دیا ہے،ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں،اپنے دل سے سمجھیں،میری طرف رجوع کریںاور مَیں اُنہیں شفا دوں۔“
41. یسعیاہ نے یہ اِس لئے فرمایا کیونکہ اُس نے عیسیٰ کا جلال دیکھ کر اُس کے بارے میں بات کی۔
42. توبھی بہت سے لوگ عیسیٰ پر ایمان رکھتے تھے۔ اُن میں کچھ راہنما بھی شامل تھے۔ لیکن وہ اِس کا علانیہ اقرار نہیں کرتے تھے، کیونکہ وہ ڈرتے تھے کہ فریسی ہمیں یہودی جماعت سے خارج کر دیں گے۔