42. اور سب نے جی بھر کر کھایا۔
43. جب شاگردوں نے روٹیوں اور مچھلیوں کے بچے ہوئے ٹکڑے جمع کئے تو بارہ ٹوکرے بھر گئے۔
44. کھانے والے مردوں کی کُل تعداد 5,000 تھی۔
45. اِس کے عین بعد عیسیٰ نے اپنے شاگردوں کو مجبور کیا کہ وہ کشتی پر سوار ہو کر آگے نکلیں اور جھیل کے پار کے شہر بیت صیدا جائیں۔ اِتنے میں وہ ہجوم کو رُخصت کرنا چاہتا تھا۔
46. اُنہیں خیرباد کہنے کے بعد وہ دعا کرنے کے لئے پہاڑ پر چڑھ گیا۔
47. شام کے وقت شاگردوں کی کشتی جھیل کے بیچ تک پہنچ گئی تھی جبکہ عیسیٰ خود خشکی پر اکیلا رہ گیا تھا۔
48. وہاں سے اُس نے دیکھا کہ شاگرد کشتی کو کھینے میں بڑی جد و جہد کر رہے ہیں، کیونکہ ہَوا اُن کے خلاف چل رہی تھی۔ تقریباً تین بجے رات کے وقت عیسیٰ پانی پر چلتے ہوئے اُن کے پاس آیا۔ وہ اُن سے آگے نکلنا چاہتا تھا،
49. لیکن جب اُنہوں نے اُسے جھیل کی سطح پر چلتے ہوئے دیکھا تو سوچنے لگے، ”یہ کوئی بھوت ہے“ اور چیخیں مارنے لگے۔
50. کیونکہ سب نے اُسے دیکھ کر دہشت کھائی۔لیکن عیسیٰ فوراً اُن سے مخاطب ہو کر بولا، ”حوصلہ رکھو! مَیں ہی ہوں۔ مت گھبراؤ۔“
51. پھر وہ اُن کے پاس آیا اور کشتی میں بیٹھ گیا۔ اُسی وقت ہَوا تھم گئی۔ شاگرد نہایت ہی حیرت زدہ ہوئے۔
52. کیونکہ جب روٹیوں کا معجزہ کیا گیا تھا تو وہ اِس کا مطلب نہیں سمجھے تھے بلکہ اُن کے دل بےحس ہو گئے تھے۔
53. جھیل کو پار کر کے وہ گنیسرت شہر کے پاس پہنچ گئے اور لنگر ڈال دیا۔
54. جوں ہی وہ کشتی سے اُترے لوگوں نے عیسیٰ کو پہچان لیا۔
55. وہ بھاگ بھاگ کر اُس پورے علاقے میں سے گزرے اور مریضوں کو چارپائیوں پر اُٹھا اُٹھا کر وہاں لے آئے جہاں کہیں اُنہیں خبر ملی کہ وہ ٹھہرا ہوا ہے۔
56. جہاں بھی وہ گیا چاہے گاؤں، شہر یا بستی میں، وہاں لوگوں نے بیماروں کو چوکوں میں رکھ کر اُس سے منت کی کہ وہ کم از کم اُنہیں اپنے لباس کے دامن کو چھونے دے۔ اور جس نے بھی اُسے چھوا اُسے شفا ملی۔