رومیوں 8:4-23 اردو جیو ورژن (UGV)

4. تاکہ ہم میں شریعت کا تقاضا پورا ہو جائے، ہم جو پرانی فطرت کے مطابق نہیں بلکہ روح کے مطابق چلتے ہیں۔

5. جو پرانی فطرت کے اختیار میں ہیں وہ پرانی سوچ رکھتے ہیں جبکہ جو روح کے اختیار میں ہیں وہ روحانی سوچ رکھتے ہیں۔

6. پرانی فطرت کی سوچ کا انجام موت ہے جبکہ روح کی سوچ زندگی اور سلامتی پیدا کرتی ہے۔

7. پرانی فطرت کی سوچ اللہ سے دشمنی رکھتی ہے۔ یہ اپنے آپ کو اللہ کی شریعت کے تابع نہیں رکھتی، نہ ہی ایسا کر سکتی ہے۔

8. اِس لئے وہ لوگ اللہ کو پسند نہیں آ سکتے جو پرانی فطرت کے اختیار میں ہیں۔

9. لیکن آپ پرانی فطرت کے اختیار میں نہیں بلکہ روح کے اختیار میں ہیں۔ شرط یہ ہے کہ روح القدس آپ میں بسا ہوا ہو۔ اگر کسی میں مسیح کا روح نہیں تو وہ مسیح کا نہیں۔

10. لیکن اگر مسیح آپ میں ہے تو پھر آپ کا بدن گناہ کی وجہ سے مُردہ ہے جبکہ روح القدس آپ کو راست باز ٹھہرانے کی وجہ سے آپ کے لئے زندگی کا باعث ہے۔

11. اُس کا روح آپ میں بستا ہے جس نے عیسیٰ کو مُردوں میں سے زندہ کیا۔ اور چونکہ روح القدس آپ میں بستا ہے اِس لئے اللہ اِس کے ذریعے آپ کے فانی بدنوں کو بھی مسیح کی طرح زندہ کرے گا۔

12. چنانچہ میرے بھائیو، ہماری پرانی فطرت کا کوئی حق نہ رہا کہ ہمیں اپنے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور کرے۔

13. کیونکہ اگر آپ اپنی پرانی فطرت کے مطابق زندگی گزاریں تو آپ ہلاک ہو جائیں گے۔ لیکن اگر آپ روح القدس کی قوت سے اپنی پرانی فطرت کے غلط کاموں کو نیست و نابود کریں تو پھر آپ زندہ رہیں گے۔

14. جس کی بھی راہنمائی روح القدس کرتا ہے وہ اللہ کا فرزند ہے۔

15. کیونکہ اللہ نے جو روح آپ کو دیا ہے اُس نے آپ کو غلام بنا کر خوف زدہ حالت میں نہیں رکھا بلکہ آپ کو اللہ کے فرزند بنا دیا ہے، اور اُسی کے ذریعے ہم پکار کر اللہ کو ”ابّا“ یعنی ”اے باپ“ کہہ سکتے ہیں۔

16. روح القدس خود ہماری روح کے ساتھ مل کر گواہی دیتا ہے کہ ہم اللہ کے فرزند ہیں۔

17. اور چونکہ ہم اُس کے فرزند ہیں اِس لئے ہم وارث ہیں، اللہ کے وارث اور مسیح کے ہم میراث۔ کیونکہ اگر ہم مسیح کے دُکھ میں شریک ہوں تو اُس کے جلال میں بھی شریک ہوں گے۔

18. میرے خیال میں ہمارا موجودہ دُکھ اُس آنے والے جلال کی نسبت کچھ بھی نہیں جو ہم پر ظاہر ہو گا۔

19. ہاں، تمام کائنات یہ دیکھنے کے لئے تڑپتی ہے کہ اللہ کے فرزند ظاہر ہو جائیں،

20. کیونکہ کائنات اللہ کی لعنت کے تحت آ کر فانی ہو گئی ہے۔ یہ اُس کی اپنی نہیں بلکہ اللہ کی مرضی تھی جس نے اُس پر یہ لعنت بھیجی۔ توبھی یہ اُمید دلائی گئی

21. کہ ایک دن کائنات کو خود اُس کی فانی حالت کی غلامی سے چھڑایا جائے گا۔ اُس وقت وہ اللہ کے فرزندوں کی جلالی آزادی میں شریک ہو جائے گی۔

22. کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ آج تک تمام کائنات کراہتی اور دردِ زہ میں تڑپتی رہتی ہے۔

23. نہ صرف کائنات بلکہ ہم خود بھی اندر ہی اندر کراہتے ہیں، گو ہمیں آنے والے جلال کا پہلا پھل روح القدس کی صورت میں مل چکا ہے۔ ہم کراہتے کراہتے شدت سے اِس انتظار میں ہیں کہ یہ بات ظاہر ہو جائے کہ ہم اللہ کے فرزند ہیں اور ہمارے بدنوں کو نجات ملے۔

رومیوں 8