3. اور داؤُد کے بھائی سمِعہ کا بیٹا یُوند ب امنُو ن کا دوست تھا اور یُوند ب بڑا چالاک آدمی تھا۔
4. سو اُس نے اُس سے کہا اَے بادشاہ زادے! تُو کیوں دِن بدِن دُبلا ہوتا جاتا ہے؟ کیا تُو مُجھے نہیں بتائے گا؟تب امنُو ن نے اُس سے کہا کہ مَیں اپنے بھائی ابی سلو م کی بہن تمر پر عاشِق ہُوں۔
5. یُوند ب نے اُس سے کہا تُو اپنے بِسترپر لیٹ جا اور بِیماری کا بہانہ کر لے اور جب تیرا باپ تُجھے دیکھنے آئے تو تُو اُس سے کہنا میری بہن تمر کو ذرا آنے دے کہ وہ مُجھے کھانا دے اور میرے سامنے کھانا پکائے تاکہ مَیں دیکُھوں اور اُس کے ہاتھ سے کھاؤُں۔
6. سو امنُو ن پڑ گیا اور اُس نے بِیماری کا بہانہ کر لِیااور جب بادشاہ اُس کو دیکھنے آیا تو امنُو ن نے بادشاہ سے کہا میری بہن تمر کو ذرا آنے دے کہ وہ میرے سامنے دو پُورِیاں بنائے تاکہ مَیں اُس کے ہاتھ سے کھاؤُں۔
7. سو داؤُد نے تمر کے گھر کہلا بھیجا کہ تُو ابھی اپنے بھائی امنُو ن کے گھر جا اور اُس کے لِئے کھانا پکا۔
8. سو تمر اپنے بھائی امنُو ن کے گھر گئی اور وہ بِستر پر پڑا ہُؤا تھا اور اُس نے آٹا لِیا اور گُوندھا اور اُس کے سامنے پُورِیاں بنائِیں اور اُن کو پکایا۔
9. اور توے کو لِیا اور اُس کے سامنے اُن کو اُنڈیل دِیا پر اُس نے کھانے سے اِنکار کِیا ۔ تب امنُو ن نے کہا کہ سب آدمِیوں کو میرے پاس سے باہر کر دو ۔ سو ہر ایک آدمی اُس کے پاس سے چلا گیا۔
10. تب امنُو ن نے تمر سے کہا کہ کھانا کوٹھری کے اندر لے آ تاکہ مَیں تیرے ہاتھ سے کھاؤُں ۔ سو تمر وہ پُورِیاں جو اُس نے پکائی تِھیں اُٹھا کر اُن کو کوٹھری میں اپنے بھائی امنُو ن کے پاس لائی۔
11. اور جب وہ اُن کو اُس کے نزدِیک لے گئی کہ وہ کھائے تو اُس نے اُسے پکڑ لِیا اور اُس سے کہا اَے میری بہن مُجھ سے وصل کر۔
12. اُس نے کہا نہیں میرے بھائی میرے ساتھ جبر نہ کر کیونکہ اِسرائیلِیوں میں کوئی اَیسا کام نہیں ہونا چاہئے ۔ تُو اَیسی حماقت نہ کر۔
13. اور بھلا مَیں اپنی رُسوائی کہاں لِئے پِھرُوں گی؟ اور تُو بھی اِسرائیلِیوں میں احمقوں میں سے ایک کی مانِند ٹھہرے گا ۔ سو تُو بادشاہ سے عرض کر کیونکہ وہ مُجھ کو تُجھ سے روک نہیں رکھّے گا۔
14. لیکن اُس نے اُس کی بات نہ مانی اور چُونکہ وہ اُس سے زورآور تھا اِس لِئے اُس نے اُس کے ساتھ جبر کِیا اور اُس سے صُحبت کی۔
15. پِھر امنُو ن کو اُس سے بڑی سخت نفرت ہو گئی کیونکہ اُس کی نفرت اُس کے جذبہِ عِشق سے کہِیں بڑھ کر تھی ۔ سو امنُو ن نے اُس سے کہا اُٹھ چلی جا۔
16. وہ کہنے لگی اَیسا نہ ہو گا کیونکہ یہ ظُلم کہ تُو مُجھے نِکالتا ہے اُس کام سے جو تُو نے مُجھ سے کِیا بدتر ہےپر اُس نے اُس کی ایک نہ سُنی۔
17. تب اُس نے اپنے ایک مُلازِم کو جو اُس کی خِدمت کرتا تھا بُلا کر کہا اِس عَورت کو میرے پاس سے باہر نِکال دے اور پِیچھے دروازہ کی چٹکنی لگا دے۔
18. اور وہ رنگ برنگ کا جوڑا پہنے ہُوئے تھی کیونکہ بادشاہوں کی کُنواری بیٹِیاں اَیسی ہی پوشاک پہنتی تِھیں ۔ غرض اُس کے خادِم نے اُس کو باہر کر دِیا اور اُس کے پِیچھے چٹکنی لگا دی۔
19. اور تمر نے اپنے سر پر خاک ڈالی اور اپنے رنگ برنگ کے جوڑے کو جو پہنے ہُوئے تھی چاک کِیا اور سر پر ہاتھ دھر کر روتی ہُوئی چلی۔
20. اُس کے بھائی ابی سلو م نے اُس سے کہا کیا تیرا بھائی امنُو ن تیرے ساتھ رہا ہے؟ خَیر اَے میری بہن اب چُپکی ہو رہ کیونکہ وہ تیرا بھائی ہے اور اِس بات کا غم نہ کر ۔ سو تمر اپنے بھائی ابی سلو م کے گھر میں بے کس پڑی رہی۔