19. اگر وہ سب ایک ہی عُضو ہوتے تو بدن کہاں ہوتا؟۔
20. مگر اب اعضا تو بُہت سے ہیں لیکن بدن ایک ہی ہے۔
21. پس آنکھ ہاتھ سے نہیں کہہ سکتی کہ مَیں تیری مُحتاج نہیں اور نہ سر پاؤں سے کہہ سکتا ہے کہ مَیں تُمہارا مُحتاج نہیں۔
22. بلکہ بدن کے وہ اعضا جو اَوروں سے کمزور معلُوم ہوتے ہیں بُہت ہی ضرُوری ہیں۔
23. اور بدن کے وہ اعضا جنہیں ہم اَوروں کی نِسبت ذلِیل جانتے ہیں اُنہی کو زیادہ عِزّت دیتے ہیں اور ہمارے نازیبااعضا بُہت زیبا ہو جاتے ہیں۔
24. حالانکہ ہمارے زیبا اعضا مُحتاج نہیں مگر خُدا نے بدن کو اِس طرح مُرکّب کِیا ہے کہ جو عُضو مُحتاج ہے اُسی کو زِیادہ عِزّت دی جائے۔
25. تاکہ بدن میں تفرِقہ نہ پڑے بلکہ اعضا ایک دُوسرے کی برابر فِکر رکھّیں۔
26. پس اگر ایک عُضو دُکھ پاتا ہے تو سب اعضا اُس کے ساتھ دُکھ پاتے ہیں اور اگر ایک عُضو عِزّت پاتا ہے تو سب اعضا اُس کے ساتھ خُوش ہوتے ہیں۔
27. اِسی طرح تُم مِل کر مسِیح کا بدن ہو اور فرداً فرداً اعضا ہو۔
28. اور خُدا نے کلِیسیا میں الگ الگ شخص مُقرّر کِئے ۔پہلے رسُول دُوسرے نبی تِیسرے اُستاد ۔پِھر مُعجِزے دِکھانے والے ۔ پِھر شِفا دینے والے ۔ مددگار ۔ مُنتظِم ۔ طرح طرح کی زُبانیں بولنے والے۔
29. کیا سب رسُول ہیں؟کیا سب نبی ہیں؟کیا سب اُستاد ہیں؟کیا سب مُعجِزہ دِکھانے والے ہیں؟۔
30. کیا سب کو شِفا دینے کی قُوّت عِنایت ہُوئی؟ کیا سب طرح طرح کی زُبانیں بولتے ہیں؟ کیا سب تَرجُمہ کرتے ہیں؟۔
31. تُم بڑی سے بڑی نِعمتوں کی آرزُو رکھّولیکن اَور بھی سب سے عُمدہ طرِیقہ مَیں تُمہیں بتاتا ہُوں۔