16. لیکن فلطی ایل اُسے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ روتے روتے بحوریم تک اپنی بیوی کے پیچھے چلتا رہا۔ تب ابنیر نے اُس سے کہا، ”اب جاؤ! واپس چلے جاؤ!“ تب وہ واپس چلا۔
17. ابنیر نے اسرائیل کے بزرگوں سے بھی بات کی، ”آپ تو کافی دیر سے چاہتے ہیں کہ داؤد آپ کا بادشاہ بن جائے۔
18. اب قدم اُٹھانے کا وقت آ گیا ہے! کیونکہ رب نے داؤد سے وعدہ کیا ہے، ’اپنے خادم داؤد سے مَیں اپنی قوم اسرائیل کو فلستیوں اور باقی تمام دشمنوں کے ہاتھ سے بچاؤں گا‘۔“
19. یہی بات ابنیر نے بن یمین کے بزرگوں کے پاس جا کر بھی کی۔ اِس کے بعد وہ حبرون میں داؤد کے پاس آیا تاکہ اُس کے سامنے اسرائیل اور بن یمین کے بزرگوں کا فیصلہ پیش کرے۔
20. بیس آدمی ابنیر کے ساتھ حبرون پہنچ گئے۔ اُن کا استقبال کر کے داؤد نے ضیافت کی۔
21. پھر ابنیر نے داؤد سے کہا، ”اب مجھے اجازت دیں۔ مَیں اپنے آقا اور بادشاہ کے لئے تمام اسرائیل کو جمع کر لوں گا تاکہ وہ آپ کے ساتھ عہد باندھ کر آپ کو اپنا بادشاہ بنا لیں۔ پھر آپ اُس پورے ملک پر حکومت کریں گے جس طرح آپ کا دل چاہتا ہے۔“ پھر داؤد نے ابنیر کو سلامتی سے رُخصت کر دیا۔
22. تھوڑی دیر کے بعد یوآب داؤد کے آدمیوں کے ساتھ کسی لڑائی سے واپس آیا۔ اُن کے پاس بہت سا لُوٹا ہوا مال تھا۔ لیکن ابنیر حبرون میں داؤد کے پاس نہیں تھا، کیونکہ داؤد نے اُسے سلامتی سے رُخصت کر دیا تھا۔
23. جب یوآب اپنے آدمیوں کے ساتھ شہر میں داخل ہوا تو اُسے اطلاع دی گئی، ”ابنیر بن نیر بادشاہ کے پاس تھا، اور بادشاہ نے اُسے سلامتی سے رُخصت کر دیا ہے۔“
24. یوآب فوراً بادشاہ کے پاس گیا اور بولا، ”آپ نے یہ کیا کِیا ہے؟ جب ابنیر آپ کے پاس آیا تو آپ نے اُسے کیوں سلامتی سے رُخصت کیا؟ اب اُسے پکڑنے کا موقع جاتا رہا ہے۔
25. آپ تو اُسے جانتے ہیں۔ حقیقت میں وہ اِس لئے آیا کہ آپ کو منوا کر آپ کے آنے جانے اور باقی کاموں کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔“
26. یوآب نے دربار سے نکل کر قاصدوں کو ابنیر کے پیچھے بھیج دیا۔ وہ ابھی سفر کرتے کرتے سیرہ کے حوض پر سے گزر رہا تھا کہ قاصد اُس کے پاس پہنچ گئے۔ اُن کی دعوت پر وہ اُن کے ساتھ واپس گیا۔ لیکن بادشاہ کو اِس کا علم نہ تھا۔
27. جب ابنیر دوبارہ حبرون میں داخل ہونے لگا تو یوآب شہر کے دروازے میں اُس کا استقبال کر کے اُسے ایک طرف لے گیا جیسے وہ اُس کے ساتھ کوئی خفیہ بات کرنا چاہتا ہو۔ لیکن اچانک اُس نے اپنی تلوار کو میان سے کھینچ کر ابنیر کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ اِس طرح یوآب نے اپنے بھائی عساہیل کا بدلہ لے کر ابنیر کو مار ڈالا۔
28. جب داؤد کو اِس کی اطلاع ملی تو اُس نے اعلان کیا، ”مَیں رب کے سامنے قَسم کھاتا ہوں کہ بےقصور ہوں۔ میرا ابنیر کی موت میں ہاتھ نہیں تھا۔ اِس ناتے سے مجھ پر اور میری بادشاہی پر کبھی بھی الزام نہ لگایا جائے،
29. کیونکہ یوآب اور اُس کے باپ کا گھرانا قصوروار ہیں۔ رب اُسے اور اُس کے باپ کے گھرانے کو مناسب سزا دے۔ اب سے ابد تک اُس کی ہر نسل میں کوئی نہ کوئی ہو جسے ایسے زخم لگ جائیں جو بھر نہ پائیں، کسی کو کوڑھ لگ جائے، کسی کو بےساکھیوں کی مدد سے چلنا پڑے، کوئی غیرطبعی موت مر جائے، یا کسی کو خوراک کی مسلسل کمی رہے۔“
30. یوں یوآب اور اُس کے بھائی ابی شے نے اپنے بھائی عساہیل کا بدلہ لیا۔ اُنہوں نے ابنیر کو اِس لئے قتل کیا کہ اُس نے عساہیل کو جِبعون کے قریب لڑتے وقت موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔
31-32. داؤد نے یوآب اور اُس کے ساتھیوں کو حکم دیا، ”اپنے کپڑے پھاڑ دو اور ٹاٹ اوڑھ کر ابنیر کا ماتم کرو!“ جنازے کا بندوبست حبرون میں کیا گیا۔ داؤد خود جنازے کے عین پیچھے چلا۔ قبر پر بادشاہ اونچی آواز سے رو پڑا، اور باقی سب لوگ بھی رونے لگے۔
33. پھر داؤد نے ابنیر کے بارے میں ماتمی گیت گایا،