17. آخرکار نعمان مان گیا۔ اُس نے کہا، ”ٹھیک ہے، لیکن مجھے ذرا ایک کام کرنے کی اجازت دیں۔ مَیں یہاں سے اِتنی مٹی اپنے گھر لے جانا چاہتا ہوں جتنی دو خچر اُٹھا کر لے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ آئندہ مَیں اُس پر رب کو بھسم ہونے والی اور ذبح کی قربانیاں چڑھانا چاہتا ہوں۔ اب سے مَیں کسی اَور معبود کو قربانیاں پیش نہیں کروں گا۔
18. لیکن رب مجھے ایک بات کے لئے معاف کرے۔ جب میرا بادشاہ پوجا کرنے کے لئے رِمّون کے مندر میں جاتا ہے تو میرے بازو کا سہارا لیتا ہے۔ یوں مجھے بھی اُس کے ساتھ جھک جانا پڑتا ہے جب وہ بُت کے سامنے اوندھے منہ جھک جاتا ہے۔ رب میری یہ حرکت معاف کر دے۔“
19. الیشع نے جواب دیا، ”سلامتی سے جائیں۔“نعمان روانہ ہوا
20. تو کچھ دیر کے بعد الیشع کا نوکر جیحازی سوچنے لگا، ”میرے آقا نے شام کے اِس بندے نعمان پر حد سے زیادہ نرم دلی کا اظہار کیا ہے۔ چاہئے تو تھا کہ وہ اُس کے تحفے قبول کر لیتا۔ رب کی حیات کی قَسم، مَیں اُس کے پیچھے دوڑ کر کچھ نہ کچھ اُس سے لے لوں گا۔“
21. چنانچہ جیحازی نعمان کے پیچھے بھاگا۔ جب نعمان نے اُسے دیکھا تو وہ رتھ سے اُتر کر جیحازی سے ملنے گیا اور پوچھا، ”کیا سب خیریت ہے؟“
22. جیحازی نے جواب دیا، ”جی، سب خیریت ہے۔ میرے آقا نے مجھے آپ کو اطلاع دینے بھیجا ہے کہ ابھی ابھی نبیوں کے گروہ کے دو جوان افرائیم کے پہاڑی علاقے سے میرے پاس آئے ہیں۔ مہربانی کر کے اُنہیں 34 کلو گرام چاندی اور دو قیمتی سوٹ دے دیں۔“