27. اِس کے بعد یہوداہ اور یروشلم کے تمام مرد یہوسفط کی راہنمائی میں خوشی مناتے ہوئے یروشلم واپس آئے۔ کیونکہ رب نے اُنہیں دشمن کی شکست سے خوشی کا سنہرا موقع عطا کیا تھا۔
28. ستار، سرود اور تُرم بجاتے ہوئے وہ یروشلم میں داخل ہوئے اور رب کے گھر کے پاس جا پہنچے۔
29. جب ارد گرد کے ممالک نے سنا کہ کس طرح رب اسرائیل کے دشمنوں سے لڑا ہے تو اُن میں اللہ کی دہشت پھیل گئی۔
30. اُس وقت سے یہوسفط سکون سے حکومت کر سکا، کیونکہ اللہ نے اُسے چاروں طرف کے ممالک کے حملوں سے محفوظ رکھا تھا۔
31. یہوسفط 35 سال کی عمر میں بادشاہ بنا، اور وہ یروشلم میں رہ کر 25 سال حکومت کرتا رہا۔ اُس کی ماں عزوبہ بنت سِلحی تھی۔
32. وہ اپنے باپ آسا کے نمونے پر چلتا اور وہ کچھ کرتا رہا جو رب کو پسند تھا۔
33. لیکن اُس نے بھی اونچے مقاموں کے مندروں کو ختم نہ کیا، اور لوگوں کے دل اپنے باپ دادا کے خدا کی طرف مائل نہ ہوئے۔
34. باقی جو کچھ یہوسفط کی حکومت کے دوران ہوا وہ شروع سے لے کر آخر تک یاہو بن حنانی کی تاریخ میں بیان کیا گیا ہے۔ بعد میں سب کچھ ’شاہانِ اسرائیل کی تاریخ‘ کی کتاب میں درج کیا گیا۔
35. بعد میں یہوداہ کے بادشاہ یہوسفط نے اسرائیل کے بادشاہ اخزیاہ سے اتحاد کیا، گو اُس کا رویہ بےدینی کا تھا۔
36. دونوں نے مل کر تجارتی جہازوں کا ایسا بیڑا بنوایا جو ترسیس تک پہنچ سکے۔ جب یہ جہاز بندرگاہ عصیون جابر میں تیار ہوئے
37. تو مریسہ کا رہنے والا اِلی عزر بن دوداواہو نے یہوسفط کے خلاف پیش گوئی کی، ”چونکہ آپ اخزیاہ کے ساتھ متحد ہو گئے ہیں اِس لئے رب آپ کا کام تباہ کر دے گا!“ اور واقعی، یہ جہاز کبھی اپنی منزلِ مقصود ترسیس تک پہنچ نہ سکے، کیونکہ وہ پہلے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔