6. یہ کہہ کر اُس نے زمین پر تھوک کر مٹی سانی اور اُس کی آنکھوں پر لگا دی۔
7. اُس نے اُس سے کہا، ”جا، شِلوخ کے حوض میں نہالے۔“ (شِلوخ کا مطلب ’بھیجا ہوا‘ ہے۔) اندھے نے جا کر نہا لیا۔ جب واپس آیا تو وہ دیکھ سکتا تھا۔
8. اُس کے ہم سائے اور وہ جنہوں نے پہلے اُسے بھیک مانگتے دیکھا تھا پوچھنے لگے، ”کیا یہ وہی نہیں جو بیٹھا بھیک مانگا کرتا تھا؟“
9. بعض نے کہا، ”ہاں، وہی ہے۔“اَوروں نے انکار کیا، ”نہیں، یہ صرف اُس کا ہم شکل ہے۔“لیکن آدمی نے خود اصرار کیا، ”مَیں وہی ہوں۔“
10. اُنہوں نے اُس سے سوال کیا، ”تیری آنکھیں کس طرح بحال ہوئیں؟“
11. اُس نے جواب دیا، ”وہ آدمی جو عیسیٰ کہلاتا ہے اُس نے مٹی سان کر میری آنکھوں پر لگا دی۔ پھر اُس نے مجھے کہا، ’شِلوخ کے حوض پر جا اور نہالے۔‘ مَیں وہاں گیا اور نہاتے ہی میری آنکھیں بحال ہو گئیں۔“
12. اُنہوں نے پوچھا، ”وہ کہاں ہے؟“اُس نے جواب دیا، ”مجھے نہیں معلوم۔“
13. تب وہ شفایاب اندھے کو فریسیوں کے پاس لے گئے۔
14. جس دن عیسیٰ نے مٹی سان کر اُس کی آنکھوں کو بحال کیا تھا وہ سبت کا دن تھا۔
15. اِس لئے فریسیوں نے بھی اُس سے پوچھ گچھ کی کہ اُسے کس طرح بصارت مل گئی۔ آدمی نے جواب دیا، ”اُس نے میری آنکھوں پر مٹی لگا دی، پھر مَیں نے نہا لیا اور اب دیکھ سکتا ہوں۔“
16. فریسیوں میں سے بعض نے کہا، ”یہ شخص اللہ کی طرف سے نہیں ہے، کیونکہ سبت کے دن کام کرتا ہے۔“دوسروں نے اعتراض کیا، ”گناہ گار اِس قسم کے الٰہی نشان کس طرح دکھا سکتا ہے؟“ یوں اُن میں پھوٹ پڑ گئی۔
17. پھر وہ دوبارہ اُس آدمی سے مخاطب ہوئے جو پہلے اندھا تھا، ”تُو خود اِس کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ اُس نے تو تیری ہی آنکھوں کو بحال کیا ہے۔“اُس نے جواب دیا، ”وہ نبی ہے۔“
18. یہودیوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ واقعی اندھا تھا اور پھر بحال ہو گیا ہے۔ اِس لئے اُنہوں نے اُس کے والدین کو بُلایا۔
19. اُنہوں نے اُن سے پوچھا، ”کیا یہ تمہارا بیٹا ہے، وہی جس کے بارے میں تم کہتے ہو کہ وہ اندھا پیدا ہوا تھا؟ اب یہ کس طرح دیکھ سکتا ہے؟“
20. اُس کے والدین نے جواب دیا، ”ہم جانتے ہیں کہ یہ ہمارا بیٹا ہے اور کہ یہ پیدا ہوتے وقت اندھا تھا۔