37. جتنے بھی باپ نے مجھے دیئے ہیں وہ میرے پاس آئیں گے اور جو بھی میرے پاس آئے گا اُسے مَیں ہرگز نکال نہ دوں گا۔
38. کیونکہ مَیں اپنی مرضی پوری کرنے کے لئے آسمان سے نہیں اُترا بلکہ اُس کی جس نے مجھے بھیجا ہے۔
39. اور جس نے مجھے بھیجا اُس کی مرضی یہ ہے کہ جتنے بھی اُس نے مجھے دیئے ہیں اُن میں سے مَیں ایک کو بھی کھو نہ دوں بلکہ سب کو قیامت کے دن مُردوں میں سے پھر زندہ کروں۔
40. کیونکہ میرے باپ کی مرضی یہی ہے کہ جو بھی فرزند کو دیکھ کر اُس پر ایمان لائے اُسے ابدی زندگی حاصل ہو۔ ایسے شخص کو مَیں قیامت کے دن مُردوں میں سے پھر زندہ کروں گا۔“
41. یہ سن کر یہودی اِس لئے بڑبڑانے لگے کہ اُس نے کہا تھا، ”مَیں ہی وہ روٹی ہوں جو آسمان پر سے اُتر آئی ہے۔“
42. اُنہوں نے اعتراض کیا، ”کیا یہ عیسیٰ بن یوسف نہیں، جس کے باپ اور ماں سے ہم واقف ہیں؟ وہ کیونکر کہہ سکتا ہے کہ ’مَیں آسمان سے اُترا ہوں‘؟“
43. عیسیٰ نے جواب میں کہا، ”آپس میں مت بڑبڑاؤ۔
44. صرف وہ شخص میرے پاس آ سکتا ہے جسے باپ جس نے مجھے بھیجا ہے میرے پاس کھینچ لایا ہے۔ ایسے شخص کو مَیں قیامت کے دن مُردوں میں سے پھر زندہ کروں گا۔
45. نبیوں کے صحیفوں میں لکھا ہے، ’سب اللہ سے تعلیم پائیں گے۔‘ جو بھی اللہ کی سن کر اُس سے سیکھتا ہے وہ میرے پاس آ جاتا ہے۔
46. اِس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی نے کبھی باپ کو دیکھا۔ صرف ایک ہی نے باپ کو دیکھا ہے، وہی جو اللہ کی طرف سے ہے۔
47. مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ جو ایمان رکھتا ہے اُسے ابدی زندگی حاصل ہے۔
48. زندگی کی روٹی مَیں ہوں۔
49. تمہارے باپ دادا ریگستان میں مَن کھاتے رہے، توبھی وہ مر گئے۔
50. لیکن یہاں آسمان سے اُترنے والی ایسی روٹی ہے جسے کھا کر انسان نہیں مرتا۔
51. مَیں ہی زندگی کی وہ روٹی ہوں جو آسمان سے اُتر آئی ہے۔ جو اِس روٹی سے کھائے وہ ابد تک زندہ رہے گا۔ اور یہ روٹی میرا گوشت ہے جو مَیں دنیا کو زندگی مہیا کرنے کی خاطر پیش کروں گا۔“
52. یہودی بڑی سرگرمی سے ایک دوسرے سے بحث کرنے لگے، ”یہ آدمی ہمیں کس طرح اپنا گوشت کھلا سکتا ہے؟“
53. عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ صرف ابنِ آدم کا گوشت کھانے اور اُس کا خون پینے ہی سے تم میں زندگی ہو گی۔