31. ہمارے باپ دادا نے تو ریگستان میں مَن کھایا۔ چنانچہ کلامِ مُقدّس میں لکھا ہے کہ موسیٰ نے اُنہیں آسمان سے روٹی کھلائی۔“
32. عیسیٰ نے جواب دیا، ”مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ خود موسیٰ نے تم کو آسمان سے روٹی نہیں کھلائی بلکہ میرے باپ نے۔ وہی تم کو آسمان سے حقیقی روٹی دیتا ہے۔
33. کیونکہ اللہ کی روٹی وہ شخص ہے جو آسمان پر سے اُتر کر دنیا کو زندگی بخشتا ہے۔“
34. اُنہوں نے کہا، ”خداوند، ہمیں یہ روٹی ہر وقت دیا کریں۔“
35. جواب میں عیسیٰ نے کہا، ”مَیں ہی زندگی کی روٹی ہوں۔ جو میرے پاس آئے اُسے پھر کبھی بھوک نہیں لگے گی۔ اور جو مجھ پر ایمان لائے اُسے پھر کبھی پیاس نہیں لگے گی۔
36. لیکن جس طرح مَیں تم کو بتا چکا ہوں، تم نے مجھے دیکھا اور پھر بھی ایمان نہیں لائے۔
37. جتنے بھی باپ نے مجھے دیئے ہیں وہ میرے پاس آئیں گے اور جو بھی میرے پاس آئے گا اُسے مَیں ہرگز نکال نہ دوں گا۔
38. کیونکہ مَیں اپنی مرضی پوری کرنے کے لئے آسمان سے نہیں اُترا بلکہ اُس کی جس نے مجھے بھیجا ہے۔
39. اور جس نے مجھے بھیجا اُس کی مرضی یہ ہے کہ جتنے بھی اُس نے مجھے دیئے ہیں اُن میں سے مَیں ایک کو بھی کھو نہ دوں بلکہ سب کو قیامت کے دن مُردوں میں سے پھر زندہ کروں۔
40. کیونکہ میرے باپ کی مرضی یہی ہے کہ جو بھی فرزند کو دیکھ کر اُس پر ایمان لائے اُسے ابدی زندگی حاصل ہو۔ ایسے شخص کو مَیں قیامت کے دن مُردوں میں سے پھر زندہ کروں گا۔“
41. یہ سن کر یہودی اِس لئے بڑبڑانے لگے کہ اُس نے کہا تھا، ”مَیں ہی وہ روٹی ہوں جو آسمان پر سے اُتر آئی ہے۔“
42. اُنہوں نے اعتراض کیا، ”کیا یہ عیسیٰ بن یوسف نہیں، جس کے باپ اور ماں سے ہم واقف ہیں؟ وہ کیونکر کہہ سکتا ہے کہ ’مَیں آسمان سے اُترا ہوں‘؟“
43. عیسیٰ نے جواب میں کہا، ”آپس میں مت بڑبڑاؤ۔