13. آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سوائے ابنِ آدم کے، جو آسمان سے اُترا ہے۔
14. اور جس طرح موسیٰ نے ریگستان میں سانپ کو لکڑی پر لٹکا کر اونچا کر دیا اُسی طرح ضرور ہے کہ ابنِ آدم کو بھی اونچے پر چڑھایا جائے،
15. تاکہ ہر ایک کو جو اُس پر ایمان لائے گا ابدی زندگی مل جائے۔
16. کیونکہ اللہ نے دنیا سے اِتنی محبت رکھی کہ اُس نے اپنے اکلوتے فرزند کو بخش دیا، تاکہ جو بھی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ابدی زندگی پائے۔
17. کیونکہ اللہ نے اپنے فرزند کو اِس لئے دنیا میں نہیں بھیجا کہ وہ دنیا کو مجرم ٹھہرائے بلکہ اِس لئے کہ وہ اُسے نجات دے۔
18. جو بھی اُس پر ایمان لایا ہے اُسے مجرم نہیں قرار دیا جائے گا، لیکن جو ایمان نہیں رکھتا اُسے مجرم ٹھہرایا جا چکا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے اکلوتے فرزند کے نام پر ایمان نہیں لایا۔
19. اور لوگوں کو مجرم ٹھہرانے کا سبب یہ ہے کہ گو اللہ کا نور اِس دنیا میں آیا، لیکن لوگوں نے نور کی نسبت اندھیرے کو زیادہ پیار کیا، کیونکہ اُن کے کام بُرے تھے۔
20. جو بھی غلط کام کرتا ہے وہ نور سے دشمنی رکھتا ہے اور اُس کے قریب نہیں آتا تاکہ اُس کے بُرے کاموں کا پول نہ کھل جائے۔
21. لیکن جو سچا کام کرتا ہے وہ نور کے پاس آتا ہے تاکہ ظاہر ہو جائے کہ اُس کے کام اللہ کے وسیلے سے ہوئے ہیں۔“
22. اِس کے بعد عیسیٰ اپنے شاگردوں کے ساتھ یہودیہ کے علاقے میں گیا۔ وہاں وہ کچھ دیر کے لئے اُن کے ساتھ ٹھہرا اور لوگوں کو بپتسمہ دینے لگا۔
23. اُس وقت یحییٰ بھی شالیم کے قریب واقع مقام عینون میں بپتسمہ دے رہا تھا، کیونکہ وہاں پانی بہت تھا۔ اُس جگہ پر لوگ بپتسمہ لینے کے لئے آتے رہے۔
24. (یحییٰ کو اب تک جیل میں نہیں ڈالا گیا تھا۔)
25. ایک دن یحییٰ کے شاگردوں کا کسی یہودی کے ساتھ مباحثہ چھڑ گیا۔ زیرِ غور مضمون دینی غسل تھا۔
26. وہ یحییٰ کے پاس آئے اور کہنے لگے، ”اُستاد، جس آدمی سے آپ کی دریائے یردن کے پار ملاقات ہوئی اور جس کے بارے میں آپ نے گواہی دی کہ وہ مسیح ہے، وہ بھی لوگوں کو بپتسمہ دے رہا ہے۔ اب سب لوگ اُسی کے پاس جا رہے ہیں۔“
27. یحییٰ نے جواب دیا، ”ہر ایک کو صرف وہ کچھ ملتا ہے جو اُسے آسمان سے دیا جاتا ہے۔