9. کیونکہ رب فرماتا ہے کہ یہ سوچ کر دھوکا مت کھاؤ کہ بابل کی فوج ضرور ہمیں چھوڑ کر چلی جائے گی۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا!
10. خواہ تم حملہ آور پوری بابلی فوج کو شکست کیوں نہ دیتے اور صرف زخمی آدمی بچے رہتے توبھی تم ناکام رہتے، توبھی یہ بعض ایک آدمی اپنے خیموں میں سے نکل کر یروشلم کو نذرِ آتش کرتے۔“
11. جب فرعون کی فوج اسرائیل کی طرف بڑھنے لگی تو بابل کے فوجی یروشلم کو چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے۔
12. اُن دنوں میں یرمیاہ بن یمین کے قبائلی علاقے کے لئے روانہ ہوا، کیونکہ وہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ کوئی موروثی ملکیت تقسیم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن جب وہ شہر سے نکلتے ہوئے
13. بن یمین کے دروازے تک پہنچ گیا تو پہرے داروں کا ایک افسر اُسے پکڑ کر کہنے لگا، ”تم بھگوڑے ہو! تم بابل کی فوج کے پاس جانا چاہتے ہو!“ افسر کا نام اِریاہ بن سلمیاہ بن حننیاہ تھا۔
14. یرمیاہ نے اعتراض کیا، ”یہ جھوٹ ہے، مَیں بھگوڑا نہیں ہوں! مَیں بابل کی فوج کے پاس نہیں جا رہا۔“ لیکن اِریاہ نہ مانا بلکہ اُسے گرفتار کر کے سرکاری افسروں کے پاس لے گیا۔
15. اُسے دیکھ کر اُنہیں یرمیاہ پر غصہ آیا، اور وہ اُس کی پٹائی کرا کر اُسے شاہی محرّر یونتن کے گھر میں لائے جسے اُنہوں نے قیدخانہ بنایا تھا۔
16. وہاں اُسے ایک زمین دوز کمرے میں ڈال دیا گیا جو پہلے حوض تھا اور جس کی چھت محراب دار تھی۔ وہ متعدد دن اُس میں بند رہا۔
17. ایک دن صِدقیاہ نے اُسے محل میں بُلایا۔ وہاں علیٰحدگی میں اُس سے پوچھا، ”کیا رب کی طرف سے میرے لئے کوئی پیغام ہے؟“ یرمیاہ نے جواب دیا، ”جی ہاں۔ آپ کو شاہِ بابل کے حوالے کیا جائے گا۔“
18. تب یرمیاہ نے صِدقیاہ بادشاہ سے اپنی بات جاری رکھ کر کہا، ”مجھ سے کیا جرم ہوا ہے؟ مَیں نے آپ کے افسروں اور عوام کا کیا قصور کیا ہے کہ مجھے جیل میں ڈلوا دیا؟
19. آپ کے وہ نبی کہاں ہیں جنہوں نے آپ کو پیش گوئی سنائی کہ شاہِ بابل نہ آپ پر، نہ اِس ملک پر حملہ کرے گا؟
20. اے میرے مالک اور بادشاہ، مہربانی کر کے میری بات سنیں، میری گزارش پوری کریں! مجھے یونتن محرّر کے گھر میں واپس نہ بھیجیں، ورنہ مَیں مر جاؤں گا۔“
21. تب صِدقیاہ بادشاہ نے حکم دیا کہ یرمیاہ کو شاہی محافظوں کے صحن میں رکھا جائے۔ اُس نے یہ ہدایت بھی دی کہ جب تک شہر میں روٹی دست یاب ہو یرمیاہ کو نان بائی گلی سے ہر روز ایک روٹی ملتی رہے۔ چنانچہ یرمیاہ محافظوں کے صحن میں رہنے لگا۔