6. کیونکہ رب شاہِ یہوداہ کے محل کے بارے میں فرماتا ہے کہ تُو جِلعاد جیسا خوش گوار اور لبنان کی چوٹی جیسا خوب صورت تھا۔ لیکن اب مَیں تجھے بیابان میں بدل دوں گا، تُو غیرآباد شہر کی مانند ہو جائے گا۔
7. مَیں آدمیوں کو تجھے تباہ کرنے کے لئے مخصوص کر کے ہر ایک کو ہتھیار سے لیس کروں گا، اور وہ دیودار کے تیرے عمدہ شہتیروں کو کاٹ کر آگ میں جھونک دیں گے۔
8. تب متعدد قوموں کے افراد یہاں سے گزر کر پوچھیں گے کہ رب نے اِس جیسے بڑے شہر کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا؟
9. اُنہیں جواب دیا جائے گا، وجہ یہ ہے کہ اِنہوں نے رب اپنے خدا کا عہد ترک کر کے اجنبی معبودوں کی پوجا اور خدمت کی ہے‘۔“
10. اِس لئے گریہ و زاری نہ کرو کہ یوسیاہ بادشاہ کوچ کر گیا ہے بلکہ اُس پر ماتم کرو جسے جلاوطن کیا گیا ہے، کیونکہ وہ کبھی واپس نہیں آئے گا، کبھی اپنا وطن دوبارہ نہیں دیکھے گا۔
11. کیونکہ رب یوسیاہ کے بیٹے اور جانشین سلّوم یعنی یہوآخز کے بارے میں فرماتا ہے، ”یہوآخز یہاں سے چلا گیا ہے اور کبھی واپس نہیں آئے گا۔
12. جہاں اُسے گرفتار کر کے پہنچایا گیا ہے وہیں وہ وفات پائے گا۔ وہ یہ ملک دوبارہ کبھی نہیں دیکھے گا۔
13. یہویقیم بادشاہ پر افسوس جو ناجائز طریقے سے اپنا گھر تعمیر کر رہا ہے، جو ناانصافی سے اُس کی دوسری منزل بنا رہا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے ہم وطنوں کو مفت میں کام کرنے پر مجبور کر رہا ہے اور اُنہیں اُن کی محنت کا معاوضہ نہیں دے رہا۔
14. وہ کہتا ہے، ’مَیں اپنے لئے کشادہ محل بنوا لوں گا جس کی دوسری منزل پر بڑے بڑے کمرے ہوں گے۔ مَیں گھر میں بڑی کھڑکیاں بنوا کر دیواروں کو دیودار کی لکڑی سے ڈھانپ دوں گا۔ اِس کے بعد مَیں اُسے سرخ رنگ سے آراستہ کروں گا۔‘
15. کیا دیودار کی شاندار عمارتیں بنوانے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تُو بادشاہ ہے؟ ہرگز نہیں! تیرے باپ کو بھی کھانے پینے کی ہر چیز میسر تھی، لیکن اُس نے اِس کا خیال کیا کہ انصاف اور راستی قائم رہے۔ نتیجے میں اُسے برکت ملی۔
16. اُس نے توجہ دی کہ غریبوں اور ضرورت مندوں کا حق مارا نہ جائے، اِسی لئے اُسے کامیابی حاصل ہوئی۔“ رب فرماتا ہے، ”جو اِسی طرح زندگی گزارے وہی مجھے صحیح طور پر جانتا ہے۔
17. لیکن تُو فرق ہے۔ تیری آنکھیں اور دل ناجائز نفع کمانے پر تُلے رہتے ہیں۔ نہ تُو بےقصور کو قتل کرنے سے، نہ ظلم کرنے یا جبراً کچھ لینے سے جھجکتا ہے۔“
18. چنانچہ رب یہوداہ کے بادشاہ یہویقیم بن یوسیاہ کے بارے میں فرماتا ہے، ”لوگ اُس پر ماتم نہیں کریں گے کہ ’ہائے میرے بھائی، ہاے میری بہن،‘ نہ وہ رو کر کہیں گے، ’ہائے، میرے آقا! ہائے، اُس کی شان جاتی رہی ہے۔‘