15. جب بھی اسرائیلی لڑنے کے لئے نکلے تو رب کا ہاتھ اُن کے خلاف تھا۔ نتیجتاً وہ ہارتے گئے جس طرح اُس نے قَسم کھا کر فرمایا تھا۔جب وہ اِس طرح بڑی مصیبت میں تھے
16. تو رب اُن کے درمیان قاضی برپا کرتا جو اُنہیں لُوٹنے والوں کے ہاتھ سے بچاتے۔
17. لیکن وہ اُن کی نہ سنتے بلکہ زنا کر کے دیگر معبودوں کے پیچھے لگے اور اُن کی پوجا کرتے رہتے۔ گو اُن کے باپ دادا رب کے احکام کے تابع رہے تھے، لیکن وہ خود بڑی جلدی سے اُس راہ سے ہٹ جاتے جس پر اُن کے باپ دادا چلے تھے۔
18. لیکن جب بھی وہ دشمن کے ظلم اور دباؤ تلے کراہنے لگتے تو رب کو اُن پر ترس آ جاتا، اور وہ کسی قاضی کو برپا کرتا اور اُس کی مدد کر کے اُنہیں بچاتا۔جتنے عرصے تک قاضی زندہ رہتا اُتنی دیر تک اسرائیلی دشمنوں کے ہاتھ سے محفوظ رہتے۔
19. لیکن اُس کے مرنے پر وہ دوبارہ اپنی پرانی راہوں پر چلنے لگتے، بلکہ جب وہ مُڑ کر دیگر معبودوں کی پیروی اور پوجا کرنے لگتے تو اُن کی روِش باپ دادا کی روِش سے بھی بُری ہوتی۔ وہ اپنی شریر حرکتوں اور ہٹ دھرم راہوں سے باز آنے کے لئے تیار ہی نہ ہوتے۔
20. اِس لئے اللہ کو اسرائیل پر بڑا غصہ آیا۔ اُس نے کہا، ”اِس قوم نے وہ عہد توڑ دیا ہے جو مَیں نے اِس کے باپ دادا سے باندھا تھا۔ یہ میری نہیں سنتی،
21. اِس لئے مَیں اُن قوموں کو نہیں نکالوں گا جو یشوع کی موت سے لے کر آج تک ملک میں رہ گئی ہیں۔ یہ قومیں اِس میں آباد رہیں گی،
22. اور مَیں اُن سے اسرائیلیوں کو آزما کر دیکھوں گا کہ آیا وہ اپنے باپ دادا کی طرح رب کی راہ پر چلیں گے یا نہیں۔“
23. چنانچہ رب نے اِن قوموں کو نہ یشوع کے حوالے کیا، نہ فوراً نکالا بلکہ اُنہیں ملک میں ہی رہنے دیا۔