22. جب میکاہ کو بات کا پتا چلا تو وہ اپنے پڑوسیوں کو جمع کر کے اُن کے پیچھے دوڑا۔ اِتنے میں دان کے لوگ گھر سے دُور نکل چکے تھے۔
23. جب وہ سامنے نظر آئے تو میکاہ اور اُس کے ساتھیوں نے چیختے چلّاتے اُنہیں رُکنے کو کہا۔ دان کے مردوں نے پیچھے دیکھ کر میکاہ سے کہا، ”کیا بات ہے؟ اپنے اِن لوگوں کو بُلا کر کیوں لے آئے ہو؟“
24. میکاہ نے جواب دیا، ”تم لوگوں نے میرے بُتوں کو چھین لیا گو مَیں نے اُنہیں خود بنوایا ہے۔ میرے امام کو بھی ساتھ لے گئے ہو۔ میرے پاس کچھ نہیں رہا تو اب تم پوچھتے ہو کہ کیا بات ہے؟“
25. دان کے افراد بولے، ”خاموش! خبردار، ہمارے کچھ لوگ تیز مزاج ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ غصے میں آ کر تم کو تمہارے خاندان سمیت مار ڈالیں۔“
26. یہ کہہ کر اُنہوں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ میکاہ نے جان لیا کہ مَیں اپنے تھوڑے آدمیوں کے ساتھ اُن کا مقابلہ نہیں کر سکوں گا، اِس لئے وہ مُڑ کر اپنے گھر واپس چلا گیا۔
27. اُس کے بُت دان کے قبضے میں رہے، اور امام بھی اُن میں ٹک گیا۔پھر وہ لَیس کے علاقے میں داخل ہوئے جس کے باشندے پُرسکون اور بےفکر زندگی گزار رہے تھے۔ دان کے فوجی اُن پر ٹوٹ پڑے اور سب کو تلوار سے قتل کر کے شہر کو بھسم کر دیا۔
28. کسی نے بھی اُن کی مدد نہ کی، کیونکہ صیدا بہت دُور تھا، اور قریب کوئی اتحادی نہیں تھا جو اُن کا ساتھ دیتا۔ یہ شہر بیت رحوب کی وادی میں تھا۔ دان کے افراد شہر کو از سرِ نو تعمیر کر کے اُس میں آباد ہوئے۔
29. اور اُنہوں نے اُس کا نام اپنے قبیلے کے بانی کے نام پر دان رکھا (دان اسرائیل کا بیٹا تھا)۔
30. وہاں اُنہوں نے تراشا ہوا بُت رکھ کر پوجا کے انتظام پر یونتن مقرر کیا جو موسیٰ کے بیٹے جَیرسوم کی اولاد میں سے تھا۔ جب یونتن فوت ہوا تو اُس کی اولاد قوم کی جلاوطنی تک دان کے قبیلے میں یہی خدمت کرتی رہی۔