12. مصری کیوں کہیں، ’رب اسرائیلیوں کو صرف اِس بُرے مقصد سے ہمارے ملک سے نکال لے گیا ہے کہ اُنہیں پہاڑی علاقے میں مار ڈالے اور یوں اُنہیں رُوئے زمین پر سے مٹائے‘؟ اپنا غصہ ٹھنڈا ہونے دے اور اپنی قوم کے ساتھ بُرا سلوک کرنے سے باز رہ۔
13. یاد رکھ کہ تُو نے اپنے خادموں ابراہیم، اسحاق اور یعقوب سے اپنی ہی قَسم کھا کر کہا تھا، ’مَیں تمہاری اولاد کی تعداد یوں بڑھاؤں گا کہ وہ آسمان کے ستاروں کے برابر ہو جائے گی۔ مَیں اُنہیں وہ ملک دوں گا جس کا وعدہ مَیں نے کیا ہے، اور وہ اُسے ہمیشہ کے لئے میراث میں پائیں گے‘۔“
14. موسیٰ کے کہنے پر رب نے وہ نہیں کیا جس کا اعلان اُس نے کر دیا تھا بلکہ وہ اپنی قوم سے بُرا سلوک کرنے سے باز رہا۔
15. موسیٰ مُڑ کر پہاڑ سے اُترا۔ اُس کے ہاتھوں میں شریعت کی دونوں تختیاں تھیں۔ اُن پر آگے پیچھے لکھا گیا تھا۔
16. اللہ نے خود تختیوں کو بنا کر اُن پر اپنے احکام کندہ کئے تھے۔
17. اُترتے اُترتے یشوع نے لوگوں کا شور سنا اور موسیٰ سے کہا، ”خیمہ گاہ میں جنگ کا شور مچ رہا ہے!“
18. موسیٰ نے جواب دیا، ”نہ تو یہ فتح مندوں کے نعرے ہیں، نہ شکست کھائے ہوؤں کی چیخ پکار۔ مجھے گانے والوں کی آواز سنائی دے رہی ہے۔“
19. جب وہ خیمہ گاہ کے نزدیک پہنچا تو اُس نے لوگوں کو سونے کے بچھڑے کے سامنے ناچتے ہوئے دیکھا۔ بڑے غصے میں آ کر اُس نے تختیوں کو زمین پر پٹخ دیا، اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر پہاڑ کے دامن میں گر گئیں۔
20. موسیٰ نے اسرائیلیوں کے بنائے ہوئے بچھڑے کو جلا دیا۔ جو کچھ بچ گیا اُسے اُس نے پیس پیس کر پاؤڈر بنا ڈالا اور پاؤڈر پانی پر چھڑک کر اسرائیلیوں کو پلا دیا۔
21. اُس نے ہارون سے پوچھا، ”اِن لوگوں نے تمہارے ساتھ کیا کِیا کہ تم نے اُنہیں ایسے بڑے گناہ میں پھنسا دیا؟“
22. ہارون نے کہا، ”میرے آقا۔ غصے نہ ہوں۔ آپ خود جانتے ہیں کہ یہ لوگ بدی پر تُلے رہتے ہیں۔
23. اُنہوں نے مجھ سے کہا، ’ہمارے لئے دیوتا بنا دیں جو ہمارے آگے آگے چلتے ہوئے ہماری راہنمائی کریں۔ کیونکہ کیا معلوم کہ اُس بندے موسیٰ کو کیا ہوا ہے جو ہمیں مصر سے نکال لایا۔‘
24. اِس لئے مَیں نے اُن کو بتایا، ’جس کے پاس سونے کے زیورات ہیں وہ اُنہیں اُتار لائے۔‘ جو کچھ اُنہوں نے مجھے دیا اُسے مَیں نے آگ میں پھینک دیا تو ہوتے ہوتے سونے کا یہ بچھڑا نکل آیا۔“