2. اُس نے مجھے اُن میں سے گزرنے دیا تو مَیں نے دیکھا کہ وادی کی زمین پر بےشمار ہڈیاں بکھری پڑی ہیں۔ یہ ہڈیاں سراسر سوکھی ہوئی تھیں۔
3. رب نے مجھ سے پوچھا، ”اے آدم زاد، کیا یہ ہڈیاں دوبارہ زندہ ہو سکتی ہیں؟“ مَیں نے جواب دیا، ”اے رب قادرِ مطلق، تُو ہی جانتا ہے۔“
4. تب اُس نے فرمایا، ”نبوّت کر کے ہڈیوں کو بتا، ’اے سوکھی ہوئی ہڈیو، رب کا کلام سنو!
5. رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ مَیں تم میں دم ڈالوں گا تو تم دوبارہ زندہ ہو جاؤ گی۔
6. مَیں تم پر نسیں اور گوشت چڑھا کر سب کچھ جِلد سے ڈھانپ دوں گا۔ مَیں تم میں دم ڈال دوں گا، اور تم زندہ ہو جاؤ گی۔ تب تم جان لو گی کہ مَیں ہی رب ہوں‘۔“
7. مَیں نے ایسا ہی کیا۔ اور جوں ہی مَیں نبوّت کرنے لگا تو شور مچ گیا۔ ہڈیاں کھڑکھڑاتے ہوئے ایک دوسری کے ساتھ جُڑ گئیں، اور ہوتے ہوتے پورے ڈھانچے بن گئے۔
8. میرے دیکھتے دیکھتے نسیں اور گوشت ڈھانچوں پر چڑھ گیا اور سب کچھ جِلد سے ڈھانپا گیا۔ لیکن اب تک جسموں میں دم نہیں تھا۔
9. پھر رب نے فرمایا، ”اے آدم زاد، نبوّت کر کے دم سے مخاطب ہو جا، ’اے دم، رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ چاروں طرف سے آ کر مقتولوں پر پھونک مار تاکہ دوبارہ زندہ ہو جائیں‘۔“
10. مَیں نے ایسا ہی کیا تو مقتولوں میں دم آ گیا، اور وہ زندہ ہو کر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے۔ ایک نہایت بڑی فوج وجود میں آ گئی تھی!
11. تب رب نے فرمایا، ”اے آدم زاد، یہ ہڈیاں اسرائیلی قوم کے تمام افراد ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’ہماری ہڈیاں سوکھ گئی ہیں، ہماری اُمید جاتی رہی ہے۔ ہم ختم ہی ہو گئے ہیں!‘
12. چنانچہ نبوّت کر کے اُنہیں بتا،’رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ اے میری قوم، مَیں تمہاری قبروں کو کھول دوں گا اور تمہیں اُن میں سے نکال کر ملکِ اسرائیل میں واپس لاؤں گا۔
13. اے میری قوم، جب مَیں تمہاری قبروں کو کھول دوں گا اور تمہیں اُن میں سے نکال لاؤں گا تب تم جان لو گے کہ مَیں ہی رب ہوں۔
14. مَیں اپنا روح تم میں ڈال دوں گا تو تم زندہ ہو جاؤ گے۔ پھر مَیں تمہیں تمہارے اپنے ملک میں بسا دوں گا۔ تب تم جان لو گے کہ یہ میرا، رب کا فرمان ہے اور مَیں یہ کروں گا بھی‘۔“
15. رب مجھ سے ہم کلام ہوا،