19. اور تمر نے اپنے سر پر خاک ڈالی اور اپنے رنگ برنگ کے جوڑے کو جو پہنے ہُوئے تھی چاک کِیا اور سر پر ہاتھ دھر کر روتی ہُوئی چلی۔
20. اُس کے بھائی ابی سلو م نے اُس سے کہا کیا تیرا بھائی امنُو ن تیرے ساتھ رہا ہے؟ خَیر اَے میری بہن اب چُپکی ہو رہ کیونکہ وہ تیرا بھائی ہے اور اِس بات کا غم نہ کر ۔ سو تمر اپنے بھائی ابی سلو م کے گھر میں بے کس پڑی رہی۔
21. اور جب داؤُد بادشاہ نے یہ سب باتیں سُنِیں تو نِہایت غُصّہ ہُؤا۔
22. اور ابی سلو م نے اپنے بھائی امنُو ن سے کُچھ بُرا بھلا نہ کہا کیونکہ ابی سلو م کو امنُو ن سے نفرت تھی اِس لِئے کہ اُس نے اُس کی بہن تمر کے ساتھ جبر کِیا تھا۔
23. اور اَیسا ہُؤا کہ پُورے دو سال کے بعد بھیڑوں کے بال کُترنے والے ابی سلو م کے ہاں بعل حصو ر میں تھے جو افرائِیم کے پاس ہے اور ابی سلو م نے بادشاہ کے سب بیٹوں کو دعوت دی۔
24. سو ابی سلو م بادشاہ کے پاس آ کر کہنے لگا کہ تیرے خادِم کے ہاں بھیڑوں کے بال کترنے والے آئے ہیں سو مَیں مِنّت کرتا ہُوں کہ بادشاہ مع اپنے مُلازِموں کے اپنے خادِم کے ساتھ چلے۔
25. تب بادشاہ نے ابی سلو م سے کہا نہیں میرے بیٹے ہم سب کے سب نہ چلیں تا نہ ہو کہ تُجھ پر ہم بوجھ ہو جائیں اور وہ اُس سے بجِد ہُؤا تَو بھی وہ نہ گیا پر اُسے دُعا دی۔
26. تب ابی سلو م نے کہا اگر اَیسا نہیں ہو سکتا تو میرے بھائی امنُو ن کو تو ہمارے ساتھ جانے دے ۔بادشاہ نے اُس سے کہا وہ تیرے ساتھ کیوں جائے؟۔
27. لیکن ابی سلو م اَیسا بجِد ہُؤا کہ اُس نے امنُو ن اور سب بادشاہ زادوں کو اُس کے ساتھ جانے دِیا۔
28. اور ابی سلو م نے اپنے خادِموں کو حُکم دِیا کہ دیکھو جب امنُو ن کا دِل مَے سے سرُور میں ہو اور مَیں تُم کو کہُوں کہ امنُو ن کو مارو تو تُم اُسے مار ڈالنا ۔ خَوف نہ کرنا ۔ کیا مَیں نے تُم کو حُکم نہیں دِیا؟ دِلیر اور بہادُر بنے رہو۔
29. چُنانچہ ابی سلو م کے نَوکروں نے امنُو ن سے وَیسا ہی کِیا جَیسا ابی سلو م نے حُکم دِیا تھا ۔ تب سب بادشاہ زادے اُٹھے اور ہر ایک اپنے خچرّ پر چڑھ کر بھاگا۔
30. اور وہ ہنوز راستہ ہی میں تھے کہ داؤُد کے پاس یہ خبر پُہنچی کہ ابی سلو م نے سب بادشاہ زادوں کو قتل کر ڈالا ہے اور اُن میں سے ایک بھی باقی نہیں بچا۔
31. تب بادشاہ نے اُٹھ کر اپنے کپڑے پھاڑے اور زمِین پر پڑ گیا اور اُس کے سب مُلازِم کپڑے پھاڑے ہُوئے اُس کے حضُور کھڑے رہے۔
32. تب داؤُد کے بھائی سِمعہ کا بیٹا یُوند ب کہنے لگا کہ میرا مالِک یہ خیال نہ کرے کہ اُنہوں نے سب جوانوں کو جو بادشاہ زادے ہیں مار ڈالا ہے اِس لِئے کہ صِرف امنُو ن ہی مَرا ہے کیونکہ ابی سلو م کے اِنتِظام سے اُسی دِن سے یہ بات ٹھان لی گئی تھی جب اُس نے اُس کی بہن تمر کے ساتھ جبر کِیا تھا۔
33. سو میرا مالِک بادشاہ اَیسا خیال کر کے کہ سب بادشاہ زادے مَر گئے اِس بات کا غم نہ کرے کیونکہ صِرف امنُو ن ہی مَرا ہے۔
34. اور ابی سلو م بھاگ گیااور اُس جوان نے جو نِگہبان تھا اپنی آنکھیں اُٹھا کر نِگاہ کی اور کیا دیکھا کہ بہت سے لوگ اُس کے پِیچھے کی طرف سے پہاڑ کے دامن کے راستہ سے چلے آ رہے ہیں۔
35. تب یُوندب نے بادشاہ سے کہا کہ دیکھ بادشاہ زادے آ گئے ۔ جَیسا تیرے خادِم نے کہا تھا وَیسا ہی ہے۔