17. اور اُس کے گھرانے کے بزُرگ اُٹھ کر اُس کے پاس آئے کہ اُسے زمِین پر سے اُٹھائیں پر وہ نہ اُٹھا اور نہ اُس نے اُن کے ساتھ کھانا کھایا۔
18. اور ساتویں دِن وہ لڑکا مَر گیا اور داؤُد کے مُلازِم اُسے ڈر کے مارے یہ نہ بتا سکے کہ لڑکا مَر گیا کیونکہ اُنہوں نے کہا کہ جب وہ لڑکا ہنوز زِندہ تھا اور ہم نے اُس سے گُفتگُو کی تو اُس نے ہماری بات نہ مانی پس اگر ہم اُسے بتائیں کہ لڑکا مَر گیا تو وہ بُہت ہی کُڑھے گا۔
19. پر جب داؤُد نے اپنے مُلازِموں کو آپس میں پُھسپُھساتے دیکھا تو داؤُد سمجھ گیا کہ لڑکا مَر گیا ۔ سو داؤُد نے اپنے مُلازِموں سے پُوچھا کیا لڑکا مَر گیا؟اُنہوں نے جواب دِیا مَر گیا۔
20. تب داؤُد زمِین پر سے اُٹھا اور غُسل کر کے اُس نے تیل لگایا اور پوشاک بدلی اور خُداوند کے گھر میں جا کر سِجدہ کِیا ۔ پِھر وہ اپنے گھر آیا اور اُس کے حُکم دینے پر اُنہوں نے اُس کے آگے روٹی رکھّی اور اُس نے کھائی۔
21. تب اُس کے مُلازِموں نے اُس سے کہا یہ کَیسا کام ہے جو تُو نے کِیا؟ جب وہ لڑکا جِیتا تھا تو تُو نے اُس کے لِئے روزہ رکھّا اور روتا بھی رہا اور جب وہ لڑکا مَر گیا تو تُو نے اُٹھ کر روٹی کھائی۔
22. اُس نے کہا کہ جب تک وہ لڑکا زِندہ تھا مَیں نے روزہ رکھّا اور مَیں روتا رہا کیونکہ مَیں نے سوچا کیا جانے خُداوند کو مُجھ پر رحم آ جائے کہ وہ لڑکا جِیتا رہے؟۔
23. پر اب تو وہ مَر گیا پس مَیں کِس لِئے روزہ کھُّوں؟ کیا مَیں اُسے لَوٹا لا سکتا ہُوں؟ مَیں تو اُس کے پاس جاؤں گا پر وہ میرے پاس نہیں لَوٹنے کا۔
24. پِھر داؤُد نے اپنی بِیوی بت سبع کو تسلّی دی اور اُس کے پاس گیا اور اُس سے صُحبت کی اور اُس کے ایک بیٹا ہُؤا اور داؤُد نے اُس کا نام سُلیَما ن رکھّا اور وہ خُداوند کا پِیارا ہُؤا۔
25. اور اُس نے ناتن نبی کی معرفت پَیغام بھیجا سو اُس نے اُس کا نام خُداوند کی خاطِر یدِید یاہ رکھّا۔
26. اور یوآب بنی عمُّون کے ربّہ سے لڑا اور اُس نے دارُالسّلطنت کو لے لِیا۔
27. اور یوآب نے قاصِدوں کی معرفت داؤُد کو کہلا بھیجا کہ مَیں ربّہ سے لڑا اور مَیں نے پانِیوں کے شہر کو لے لِیا۔
28. پس اب تُو باقی لوگوں کو جمع کر اور اِس شہر کے مُقابِل خَیمہ زن ہو اور اِس پر قبضہ کر لے تا نہ ہو کہ مَیں اِس شہر کو سر کرُوں اور وہ میرے نام سے کہلائے۔
29. تب داؤُد نے سب لوگوں کو جمع کِیا اور ربّہ کو گیا اور اُس سے لڑا اور اُسے لے لِیا۔