16. اُس نے جواب دِیا خَوف نہ کر کیونکہ ہمارے ساتھ والے اُن کے ساتھ والوں سے زِیادہ ہیں۔
17. اور الِیشع نے دُعا کی اور کہا اَے خُداوند اُس کی آنکھیں کھول دے تاکہ وہ دیکھ سکے ۔ تب خُداوند نے اُس جوان کی آنکھیں کھول دِیں اور اُس نے جو نِگاہ کی تو دیکھا کہ الِیشع کے گِردا گِرد کا پہاڑ آتشی گھوڑوں اور رتھوں سے بھرا ہے۔
18. اور جب وہ اُس کی طرف آنے لگے تو الِیشع نے خُداوند سے دُعا کی اور کہا مَیں تیری مِنّت کرتا ہُوں اِن لوگوں کو اندھا کر دے سو اُس نے جَیسا الِیشع نے کہا تھا اُن کو اندھا کر دِیا۔
19. پِھر الِیشع نے اُن سے کہا یہ وہ راستہ نہیں اور نہ یہ وہ شہر ہے۔ تُم میرے پِیچھے چلے آؤ اور مَیں تُم کو اُس شخص کے پاس پُہنچا دُوں گا جِس کی تُم تلاش کرتے ہو اور وہ اُن کو سامر یہ کو لے گیا۔
20. اور جب وہ سامرِ یہ میں پُہنچے تو الِیشع نے کہا اَے خُداوند اِن لوگوں کی آنکھیں کھول دے تاکہ وہ دیکھ سکیں ۔ تب خُداوند نے اُن کی آنکھیں کھول دِیں اور اُنہوں نے جو نِگاہ کی تو کیا دیکھا کہ سامرِ یہ کے اندر ہیں۔
21. اور شاہِ اِسرا ئیل نے اُن کو دیکھ کر الِیشع سے کہا اَے میرے باپ کیا مَیں اُن کو مار لُوں؟ مَیں اُن کو مار لُوں؟۔
22. اُس نے جواب دِیا تُو اُن کو نہ مار ۔ کیا تُو اُن کو مار دِیا کرتا ہے جِن کو تُو اپنی تلوار اور کمان سے اسِیرکر لیتا ہے؟ تُو اُن کے آگے روٹی اور پانی رکھ تاکہ وہ کھائیں پِئیں اور اپنے آقا کے پاس جائیں۔
23. سو اُس نے اُن کے لِئے بُہت سا کھانا تیّار کِیا اور جب وہ کھا پی چُکے تو اُس نے اُن کو رُخصت کِیا اور وہ اپنے آقا کے پاس چلے گئے اور ارا م کے جتھے اِسرا ئیل کے مُلک میں پِھر نہ آئے۔
24. اِس کے بعد اَیسا ہُؤا کہ بِن ہدد شاہِ ارا م اپنی سب فَوج اِکٹّھی کر کے چڑھ آیا اور سامرِ یہ کا مُحاصرہ کر لِیا۔
25. اور سامرِ یہ میں بڑا کال تھا اور وہ اُسے گھیرے رہے یہاں تک کہ گدھے کا سر چاندی کے اسّی سِکّوں میں اورکبُوتر کی بِیٹ کا ایک چَوتھائی پَیمانہ چاندی کے پانچ سِکّوں میں بِکنے لگا۔
26. اور جب شاہِ اِسرا ئیل دِیوار پر جا رہا تھا تو ایک عَورت نے اُس کی دُہائی دی اور کہا اَے میرے مالِک اَے بادشاہ مدد کر!۔
27. اُس نے کہا کہ اگر خُداوند ہی تیری مدد نہ کرے تو مَیں کہاں سے تیری مدد کرُوں؟ کیا کھلِیہان سے یا انگُور کے کولُھو سے؟۔