8. سو اُس نے اُٹھ کر کھایا پِیا اور اُس کھانے کی قُوّت سے چالِیس دِن اور چالِیس رات چل کر خُدا کے پہاڑ حورِب تک گیا۔
9. اور وہاں ایک غار میں جا کر ٹِک گیااور دیکھو خُداوند کا یہ کلام اُس پر نازِل ہُؤا کہ اَے ایلیّاہ ! تُو یہاں کیا کرتا ہے؟۔
10. اُس نے کہا خُداوند لشکروں کے خُدا کے لِئے مُجھے بڑی غَیرت آئی کیونکہ بنی اِسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کِیا اور تیرے مذبحوں کو ڈھا دِیا اور تیرے نبِیوں کو تلوار سے قتل کِیا اور ایک مَیں ہی اکیلا بچا ہُوں۔ سو وہ میری جان لینے کے درپَے ہیں۔
11. اُس نے کہا باہر نِکل اور پہاڑ پر خُداوند کے حضُورکھڑا ہو اور دیکھو خُداوند گُذرا اور ایک بڑی تُند آندھی نے خُداوند کے آگے پہاڑوں کو چِیر ڈالا اور چٹانوں کے ٹُکڑے کر دِئے پر خُداوند آندھی میں نہیں تھا اور آندھی کے بعد زلزلہ آیا پر خُداوند زلزلہ میں نہیں تھا۔
12. اور زلزلہ کے بعد آگ آئی پر خُداوند آگ میں بھی نہیں تھا اور آگ کے بعد ایک دبی ہُوئی ہلکی آواز آئی۔
13. اُس کو سُن کر ایلیّاہ نے اپنا مُنہ اپنی چادر سے لپیٹ لِیا اور باہر نِکل کر اُس غار کے مُنہ پر کھڑا ہُؤا اور دیکھو اُسے یہ آواز آئی کہ اَے ایلیّا ہ تُو یہاں کیا کرتا ہے؟۔
14. اُس نے کہا مُجھے خُداوند لشکروں کے خُدا کے لِئے بڑی غَیرت آئی کیونکہ بنی اِسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کِیا اور تیرے مذبحوں کو ڈھا دِیا اور تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کِیا ۔ ایک مَیں ہی اکیلا بچا ہُوں ۔ سو وہ میری جان لینے کے درپَے ہیں۔
15. خُداوند نے اُسے فرمایا تُو اپنے راستہ لَوٹ کر دمشق کے بیابان کو جا اور جب تُو وہاں پُہنچے تو تُو حزا ئیل کو مَسح کر کہ ارا م کا بادشاہ ہو۔