10. اور کیا اب مَیں نے خُداوند کے بے کہے ہی اِس مقام کو غارت کرنے کے لِئے اِس پر چڑھائی کی ہے؟ خُداوند ہی نے تو مُجھ سے کہا کہ اِس مُلک پر چڑھائی کر اور اِسے غارت کر دے۔
11. تب الیاقِیم اور شبنا اور یُوآخ نے ربشا قی سے عرض کی کہ اپنے خادِموں سے ارامی زُبان میں بات کر کیونکہ ہم اُسے سمجھتے ہیں اور دِیوار پر کے لوگوں کے سُنتے ہُوئے یہُودیوں کی زُبان میں ہم سے بات نہ کر۔
12. لیکن ربشا قی نے کہا کیا میرے آقا نے مُجھے یہ باتیں کہنے کو تیرے آقا کے پاس یا تیرے پاس بھیجا ہے؟ کیا اُس نے مُجھے اُن لوگوں کے پاس نہیں بھیجا جو تُمہارے ساتھ اپنی ہی نجاست کھانے اور اپنا ہی قارُورہ پِینے کو دِیوارپر بَیٹھے ہیں؟۔
13. پِھر ربشا قی کھڑا ہو گیا اور یہُودیوں کی زُبان میں بُلند آواز سے یُوں کہنے لگا کہ ملکِ مُعظّم شاہِ اسُور کا کلام سُنو۔
14. بادشاہ یُوں فرماتا ہے کہ حِزقیاہ تُم کو فریب نہ دے کیونکہ وہ تُم کو چُھڑا نہیں سکے گا۔
15. اور نہ وہ یہ کہہ کر تُم سے خُداوند پر بھروسا کرائے کہ خُداوند ضرُور ہم کو چُھڑائے گا اور یہ شہر شاہِ اسُور کے حوالہ نہ کِیا جائے گا۔
16. حِزقیاہ کی نہ سُنو کیونکہ شاہِ اسُور یُوں فرماتاہے کہ تُم مُجھ سے صُلح کر لو اور نِکل کر میرے پاس آؤ اور تُم میں سے ہر ایک اپنی تاک اور اپنے انجِیر کے درخت کا میوہ کھاتا اور اپنے حَوض کا پانی پِیتا رہے۔
17. جب تک کہ مَیں آ کر تُم کو اَیسے مُلک میں نہ لے جاؤُں جو تُمہارے مُلک کی مانِند غلّہ اور مَے کا مُلک ۔ روٹی اور تاکِستانوں کا مُلک ہے۔