15. کیا مُجھے روا نہیں کہ اپنے مال سے جو چاہُوں سو کرُوں؟ یا تُو اِس لِئے کہ مَیں نیک ہُوں بُری نظر سے دیکھتا ہے؟۔
16. اِسی طرح آخِر اوّل ہو جائیں گے اور اوّل آخِر۔
17. اوریروشلِیم جاتے ہُوئے یِسُو ع بارہ شاگِردوں کو الگ لے گیا اور راہ میں اُن سے کہا۔
18. دیکھو ہم یروشلِیم کو جاتے ہیں اور اِبنِ آدم سردار کاہِنوں اور فقِیہوں کے حوالہ کِیا جائے گا اور وہ اُس کے قتل کا حُکم دیں گے۔
19. اور اُسے غَیر قَوموں کے حوالہ کریں گے تاکہ وہ اُسے ٹھٹّھوں میں اُڑائیں اور کوڑے ماریں اور مصلُوب کریں اور وہ تِیسرے دِن زِندہ کِیا جائے گا۔
20. اُس وقت زبد ی کے بیٹوں کی ماں نے اپنے بیٹوں کے ساتھ اُس کے سامنے آ کر سِجدہ کِیا اور اُس سے کُچھ عرض کرنے لگی۔
21. اُس نے اُس سے کہا کہ تُو کیا چاہتی ہے؟اُس نے اُس سے کہا فرما کہ یہ میرے دونوں بیٹے تیری بادشاہی میں تیری دہنی اور بائیں طرف بَیٹھیں۔
22. یِسُو ع نے جواب میں کہا تُم نہیں جانتے کہ کیا مانگتے ہو ۔ جو پِیالہ مَیں پِینے کو ہُوں کیا تُم پی سکتے ہو؟اُنہوں نے اُس سے کہا پی سکتے ہیں۔
23. اُس نے اُن سے کہا میرا پِیالہ تو پِیو گے لیکن اپنے دہنے بائیں کِسی کو بِٹھانا میرا کام نہیں مگر جِن کے لِئے میرے باپ کی طرف سے تیّار کِیا گیا اُن ہی کے لِئے ہے۔
24. اور جب دسوں نے یہ سُنا تو اُن دونوں بھائِیوں سے خفا ہُوئے۔
25. مگر یِسُو ع نے اُنہیں پاس بُلا کر کہا تُم جانتے ہو کہ غَیر قَوموں کے سردار اُن پر حُکم چلاتے اور امِیراُن پر اِختیار جتاتے ہیں۔
26. تُم میں اَیسا نہ ہو گا بلکہ جو تُم میں بڑا ہونا چاہے وہ تُمہارا خادِم بنے۔
27. اور جو تُم میں اوّل ہونا چاہے وہ تُمہارا غُلام بنے۔