10. چُنانچہ خواجہ سراؤں کے سردار نے دانی ایل سے کہا کہ مَیں اپنے خُداوند بادشاہ سے جِس نے تُمہارا کھانا پِینا مُقرّر کِیا ہے ڈرتا ہُوں ۔ تُمہارے چِہرے اُس کی نظر میں تُمہارے ہم عُمروں کے چِہروں سے کیوں زبُون ہوں اور یُوں تُم میرے سر کو بادشاہ کے حضُور خطرہ میں ڈالو؟۔
11. تب دانی ایل نے داروغہ سے جِس کو خواجہ سراؤں کے سردار نے دانی ایل اور حننیا ہ اور مِیساا یل اور عزریا ہ پر مُقرّر کِیا تھا کہا۔
12. مَیں تیری مِنّت کرتا ہُوں کہ تُو دس روز تک اپنے خادِموں کو آزما کر دیکھ اور کھانے کو ساگ پات اور پِینے کو پانی ہم کو دِلوا۔
13. تب ہمارے چہرے اور اُن جوانوں کے چِہرے جو شاہی کھانا کھاتے ہیں تیرے حضُور دیکھے جائیں ۔ پِھر اپنے خادِموں سے جو تُو مُناسِب سمجھے سو کر۔
14. چُنانچہ اُس نے اُن کی یہ بات قبُول کی اور دس روز تک اُن کو آزمایا۔
15. اور دس روز کے بعد اُن کے چِہروں پر اُن سب جوانوں کے چِہروں کی نِسبت جو شاہی کھانا کھاتے تھے زِیادہ رَونق اور تازگی نظر آئی۔
16. تب داروغہ نے اُن کی خُوراک اور مَے کو جو اُن کے لِئے مُقرّر تھی مَوقُوف کِیا اور اُن کو ساگ پات کھانے کو دِیا۔
17. تب خُدا نے اُن چاروں جوانوں کو معرفت اور ہر طرح کی حِکمت اور عِلم میں مہارت بخشی اور دانی ایل ہر طرح کی رویا اور خواب میں صاحبِ فہم تھا۔
18. اور جب وہ دِن گُذر گئے جِن کے بعد بادشاہ کے فرمان کے مُطابِق اُن کو حاضِر ہونا تھا تو خواجہ سراؤں کا سردار اُن کو نبُوکد نضر کے حضُور لے گیا۔