14. اگلے دن صبح داؤد نے یوآب کو خط لکھ کر اُوریاہ کے ہاتھ بھیج دیا۔
15. اُس میں لکھا تھا، ”اُوریاہ کو سب سے اگلی صف میں کھڑا کریں، جہاں لڑائی سب سے سخت ہوتی ہے۔ پھر اچانک پیچھے کی طرف ہٹ کر اُسے چھوڑ دیں تاکہ دشمن اُسے مار دے۔“
16. یہ پڑھ کر یوآب نے اُوریاہ کو ایک ایسی جگہ پر کھڑا کیا جس کے بارے میں اُسے علم تھا کہ دشمن کے سب سے زبردست فوجی وہاں لڑتے ہیں۔
17. جب عمونیوں نے شہر سے نکل کر اُن پر حملہ کیا تو کچھ اسرائیلی شہید ہوئے۔ اُوریاہ حِتّی بھی اُن میں شامل تھا۔
18. یوآب نے لڑائی کی پوری رپورٹ بھیج دی۔
19. داؤد کو یہ پیغام پہنچانے والے کو اُس نے بتایا، ”جب آپ بادشاہ کو تفصیل سے لڑائی کا سارا سلسلہ سنائیں گے
20. تو ہو سکتا ہے وہ غصے ہو کر کہے، ’آپ شہر کے اِتنے قریب کیوں گئے؟ کیا آپ کو معلوم نہ تھا کہ دشمن فصیل سے تیر چلائیں گے؟
21. کیا آپ کو یاد نہیں کہ قدیم زمانے میں جدعون کے بیٹے ابی مَلِک کے ساتھ کیا ہوا؟ تیبض شہر میں ایک عورت ہی نے اُسے مار ڈالا۔ اور وجہ یہ تھی کہ وہ قلعے کے اِتنے قریب آ گیا تھا کہ عورت دیوار پر سے چکّی کا اوپر کا پاٹ اُس پر پھینک سکی۔ شہر کی فصیل کے اِس قدر قریب لڑنے کی کیا ضرورت تھی؟‘ اگر بادشاہ آپ پر ایسے الزامات لگائیں تو جواب میں بس اِتنا ہی کہہ دینا، ’اُوریاہ حِتّی بھی مارا گیا ہے‘۔“
22. قاصد روانہ ہوا۔ جب یروشلم پہنچا تو اُس نے داؤد کو یوآب کا پورا پیغام سنا دیا،
23. ”دشمن ہم سے زیادہ طاقت ور تھے۔ وہ شہر سے نکل کر کھلے میدان میں ہم پر ٹوٹ پڑے۔ لیکن ہم نے اُن کا سامنا یوں کیا کہ وہ پیچھے ہٹ گئے، بلکہ ہم نے اُن کا تعاقب شہر کے دروازے تک کیا۔
24. لیکن افسوس کہ پھر کچھ تیرانداز ہم پر فصیل پر سے تیر برسانے لگے۔ آپ کے کچھ خادم کھیت آئے اور اُوریاہ حِتّی بھی اُن میں شامل ہے۔“