12. جب گائیوں کو چھوڑ دیا گیا تو وہ ڈکراتی ڈکراتی سیدھی بیت شمس کے راستے پر آ گئیں اور نہ دائیں، نہ بائیں طرف ہٹیں۔ فلستیوں کے سردار بیت شمس کی سرحد تک اُن کے پیچھے چلے۔
13. اُس وقت بیت شمس کے باشندے نیچے وادی میں گندم کی فصل کاٹ رہے تھے۔ عہد کا صندوق دیکھ کر وہ نہایت خوش ہوئے۔
14. بَیل گاڑی ایک کھیت تک پہنچی جس کا مالک بیت شمس کا رہنے والا یشوع تھا۔ وہاں وہ ایک بڑے پتھر کے پاس رُک گئی۔ لوگوں نے بَیل گاڑی کی لکڑی ٹکڑے ٹکڑے کر کے اُسے جلا دیا اور گائیوں کو ذبح کر کے رب کو بھسم ہونے والی قربانی کے طور پر پیش کیا۔
15. لاوی کے قبیلے کے کچھ مردوں نے رب کے صندوق کو بَیل گاڑی سے اُٹھا کر سونے کی چیزوں کے تھیلے سمیت پتھر پر رکھ دیا۔ اُس دن بیت شمس کے لوگوں نے رب کو بھسم ہونے والی اور ذبح کی قربانیاں پیش کیں۔
16. یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد فلستی سردار اُسی دن عقرون واپس چلے گئے۔
17. فلستیوں نے اپنا قصور دُور کرنے کے لئے ہر ایک شہر کے لئے سونے کا ایک پھوڑا بنا لیا تھا یعنی اشدود، غزہ، اسقلون، جات اور عقرون کے لئے ایک ایک پھوڑا۔
18. اِس کے علاوہ اُنہوں نے ہر شہر اور اُس کے گرد و نواح کی آبادیوں کے لئے سونے کا ایک ایک چوہا بنا لیا تھا۔ جس بڑے پتھر پر عہد کا صندوق رکھا گیا وہ آج تک یشوع بیت شمسی کے کھیت میں اِس بات کی گواہی دیتا ہے۔
19. لیکن رب نے بیت شمس کے باشندوں کو سزا دی، کیونکہ اُن میں سے بعض نے عہد کے صندوق میں نظر ڈالی تھی۔ اُس وقت 70 افراد ہلاک ہوئے۔ رب کی یہ سخت سزا دیکھ کر بیت شمس کے لوگ ماتم کرنے لگے۔
20. وہ بولے، ”کون اِس مُقدّس خدا کے حضور قائم رہ سکتا ہے؟ یہ ہمارے بس کی بات نہیں، لیکن ہم رب کا صندوق کس کے پاس بھیجیں؟“
21. آخر میں اُنہوں نے قِریَت یعریم کے باشندوں کو پیغام بھیجا، ”فلستیوں نے رب کا صندوق واپس کر دیا ہے۔ اب آئیں اور اُسے اپنے پاس لے جائیں!“