9. چنانچہ بادشاہ نے قاصدوں سے کہا، ”میرے آقا بادشاہ کو جواب دینا، جو کچھ آپ نے پہلی مرتبہ مانگ لیا وہ مَیں آپ کو دینے کے لئے تیار ہوں، لیکن یہ آخری تقاضا مَیں پورا نہیں کر سکتا۔“جب قاصدوں نے بن ہدد کو یہ خبر پہنچائی
10. تو اُس نے اخی اب کو فوراً خبر بھیج دی، ”دیوتا مجھے سخت سزا دیں اگر مَیں سامریہ کو نیست و نابود نہ کر دوں۔ اِتنا بھی نہیں رہے گا کہ میرا ہر فوجی مٹھی بھر خاک اپنے ساتھ واپس لے جا سکے!“
11. اسرائیل کے بادشاہ نے قاصدوں کو جواب دیا، ”اُسے بتا دینا کہ جو ابھی جنگ کی تیاریاں کر رہا ہے وہ فتح کے نعرے نہ لگائے۔“
12. جب بن ہدد کو یہ اطلاع ملی تو وہ لشکرگاہ میں اپنے اتحادی بادشاہوں کے ساتھ مَے پی رہا تھا۔ اُس نے اپنے افسروں کو حکم دیا، ”حملہ کرنے کے لئے تیاریاں کرو!“ چنانچہ وہ شہر پر حملہ کرنے کی تیاریاں کرنے لگے۔
13. اِس دوران ایک نبی اخی اب بادشاہ کے پاس آیا اور کہا، ”رب فرماتا ہے، ’کیا تجھے دشمن کی یہ بڑی فوج نظر آ رہی ہے؟ توبھی مَیں اِسے آج ہی تیرے حوالے کر دوں گا۔ تب تُو جان لے گا کہ مَیں ہی رب ہوں‘۔“
14. اخی اب نے سوال کیا، ”رب یہ کس کے وسیلے سے کرے گا؟“ نبی نے جواب دیا، ”رب فرماتا ہے کہ ضلعوں پر مقرر افسروں کے جوان یہ فتح پائیں گے۔“ بادشاہ نے مزید پوچھا، ”لڑائی میں کون پہلا قدم اُٹھائے؟“ نبی نے کہا، ”تُو ہی۔“
15. چنانچہ اخی اب نے ضلعوں پر مقرر افسروں کے جوانوں کو بُلایا۔ 232 افراد تھے۔ پھر اُس نے باقی اسرائیلیوں کو جمع کیا۔ 7,000 افراد تھے۔
18. بن ہدد نے حکم دیا، ”ہر صورت میں اُنہیں زندہ پکڑیں، خواہ وہ امن پسند ارادہ رکھتے ہوں یا نہ۔“
19. لیکن اُنہیں یہ کرنے کا موقع نہ ملا، کیونکہ اسرائیل کے ضلعوں پر مقرر افسروں اور باقی فوجیوں نے شہر سے نکل کر
20. فوراً اُن پر حملہ کر دیا۔ اور جس بھی دشمن کا مقابلہ ہوا اُسے مارا گیا۔ تب شام کی پوری فوج بھاگ گئی۔ اسرائیلیوں نے اُن کا تعاقب کیا، لیکن شام کا بادشاہ بن ہدد گھوڑے پر سوار ہو کر چند ایک گھڑسواروں کے ساتھ بچ نکلا۔
21. اُس وقت اسرائیل کا بادشاہ جنگ کے لئے نکلا اور گھوڑوں اور رتھوں کو تباہ کر کے اَرامیوں کو زبردست شکست دی۔
22. بعد میں مذکورہ نبی دوبارہ اسرائیل کے بادشاہ کے پاس آیا۔ وہ بولا، ”اب مضبوط ہو کر بڑے دھیان سے سوچیں کہ آنے والے دنوں میں کیا کیا تیاریاں کرنی چاہئیں، کیونکہ اگلے بہار کے موسم میں شام کا بادشاہ دوبارہ آپ پر حملہ کرے گا۔“
23. شام کے بادشاہ کو بھی مشورہ دیا گیا۔ اُس کے بڑے افسروں نے خیال پیش کیا، ”اسرائیلیوں کے دیوتا پہاڑی دیوتا ہیں، اِس لئے وہ ہم پر غالب آ گئے ہیں۔ لیکن اگر ہم میدانی علاقے میں اُن سے لڑیں تو ہر صورت میں جیتیں گے۔
24. لیکن ہمارا ایک اَور مشورہ بھی ہے۔ 32 بادشاہوں کو ہٹا کر اُن کی جگہ اپنے افسروں کو مقرر کریں۔
25. پھر ایک نئی فوج تیار کریں جو تباہ شدہ پرانی فوج جیسی طاقت ور ہو۔ اُس کے اُتنے ہی رتھ اور گھوڑے ہوں جتنے پہلے تھے۔ پھر جب ہم میدانی علاقے میں اُن سے لڑیں گے تو اُن پر ضرور غالب آئیں گے۔“بادشاہ اُن کی بات مان کر تیاریاں کرنے لگا۔
26. جب بہار کا موسم آیا تو وہ شام کے فوجیوں کو جمع کر کے اسرائیل سے لڑنے کے لئے افیق شہر گیا۔