32. چنانچہ بن ہدد کے افسر ٹاٹ اوڑھ کر اور اپنی گردنوں میں رسّے ڈال کر اسرائیل کے بادشاہ کے پاس آئے۔ اُنہوں نے کہا، ”آپ کا خادم بن ہدد گزارش کرتا ہے کہ مجھے زندہ چھوڑ دیں۔“ اخی اب نے سوال کیا، ”کیا وہ اب تک زندہ ہے؟ وہ تو میرا بھائی ہے!“
33. جب بن ہدد کے افسروں نے جان لیا کہ اخی اب کا رُجحان کس طرف ہے تو اُنہوں نے جلدی سے اِس کی تصدیق کی، ”جی، بن ہدد آپ کا بھائی ہے!“ اخی اب نے حکم دیا، ”جا کر اُسے بُلا لائیں۔“تب بن ہدد نکل آیا، اور اخی اب نے اُسے اپنے رتھ پر سوار ہونے کی دعوت دی۔
34. بن ہدد نے اخی اب سے کہا، ”مَیں آپ کو وہ تمام شہر واپس کر دیتا ہوں جو میرے باپ نے آپ کے باپ سے چھین لئے تھے۔ آپ ہمارے دار الحکومت دمشق میں تجارتی مراکز بھی قائم کر سکتے ہیں، جس طرح میرے باپ نے پہلے سامریہ میں کیا تھا۔“ اخی اب بولا، ”ٹھیک ہے۔ اِس کے بدلے میں مَیں آپ کو رِہا کر دوں گا۔“ اُنہوں نے معاہدہ کیا، پھر اخی اب نے شام کے بادشاہ کو رِہا کر دیا۔
35. اُس وقت رب نے نبیوں میں سے ایک کو ہدایت کی، ”جا کر اپنے ساتھی کو کہہ دے کہ وہ تجھے مارے۔“ نبی نے ایسا کیا، لیکن ساتھی نے انکار کیا۔
36. پھر نبی بولا، ”چونکہ آپ نے رب کی نہیں سنی، اِس لئے جوں ہی آپ مجھ سے چلے جائیں گے شیرببر آپ کو پھاڑ ڈالے گا۔“ اور ایسا ہی ہوا۔ جب ساتھی وہاں سے نکلا تو شیرببر نے اُس پر حملہ کر کے اُسے پھاڑ ڈالا۔
37. نبی کی ملاقات کسی اَور سے ہوئی تو اُس نے اُس سے بھی کہا، ”مہربانی کر کے مجھے ماریں!“ اُس آدمی نے نبی کو مار مار کر زخمی کر دیا۔
38. تب نبی نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھی تاکہ اُسے پہچانا نہ جائے، پھر راستے کے کنارے پر اخی اب بادشاہ کے انتظار میں کھڑا ہو گیا۔
39. جب بادشاہ وہاں سے گزرا تو نبی چلّا کر اُس سے مخاطب ہوا، ”جناب، مَیں میدانِ جنگ میں لڑ رہا تھا کہ اچانک کسی آدمی نے میرے پاس آ کر اپنے قیدی کو میرے حوالے کر دیا۔ اُس نے کہا، ’اِس کی نگرانی کرنا۔ اگر یہ کسی بھی وجہ سے بھاگ جائے تو آپ کو اُس کی جان کے عوض اپنی جان دینی پڑے گی یا آپ کو ایک من چاندی ادا کرنی پڑے گی۔‘
40. لیکن مَیں اِدھر اُدھر مصروف رہا، اور اِتنے میں قیدی غائب ہو گیا۔“ اخی اب بادشاہ نے جواب دیا، ”آپ نے خود اپنے بارے میں فیصلہ دیا ہے۔ اب آپ کو اِس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔“
41. پھر نبی نے جلدی سے پٹی کو اپنی آنکھوں پر سے اُتار دیا، اور بادشاہ نے پہچان لیا کہ یہ نبیوں میں سے ایک ہے۔
42. نبی نے کہا، ”رب فرماتا ہے، ’مَیں نے مقرر کیا تھا کہ بن ہدد کو میرے لئے مخصوص کر کے ہلاک کرنا ہے، لیکن تُو نے اُسے رِہا کر دیا ہے۔ اب اُس کی جگہ تُو ہی مرے گا، اور اُس کی قوم کی جگہ تیری قوم کو نقصان پہنچے گا‘۔“
43. اسرائیل کا بادشاہ بڑے غصے اور بدمزاجی کے عالم میں سامریہ میں اپنے محل میں چلا گیا۔