13. ایسے فرزند جو نہ فطری طور پر، نہ کسی انسان کے منصوبے کے تحت پیدا ہوئے بلکہ اللہ سے۔
14. کلام انسان بن کر ہمارے درمیان رہائش پذیر ہوا اور ہم نے اُس کے جلال کا مشاہدہ کیا۔ وہ فضل اور سچائی سے معمور تھا اور اُس کا جلال باپ کے اکلوتے فرزند کا سا تھا۔
15. یحییٰ اُس کے بارے میں گواہی دے کر پکار اُٹھا، ”یہ وہی ہے جس کے بارے میں مَیں نے کہا، ’ایک میرے بعد آنے والا ہے جو مجھ سے بڑا ہے، کیونکہ وہ مجھ سے پہلے تھا۔“
16. اُس کی کثرت سے ہم سب نے فضل پر فضل پایا۔
17. کیونکہ شریعت موسیٰ کی معرفت دی گئی، لیکن اللہ کا فضل اور سچائی عیسیٰ مسیح کے وسیلے سے قائم ہوئی۔
18. کسی نے کبھی بھی اللہ کو نہیں دیکھا۔ لیکن اکلوتا فرزند جو اللہ کی گود میں ہے اُسی نے اللہ کو ہم پر ظاہر کیا ہے۔
19. یہ یحییٰ کی گواہی ہے جب یروشلم کے یہودیوں نے اماموں اور لاویوں کو اُس کے پاس بھیج کر پوچھا، ”آپ کون ہیں؟“
20. اُس نے انکار نہ کیا بلکہ صاف تسلیم کیا، ”مَیں مسیح نہیں ہوں۔“
21. اُنہوں نے پوچھا، ”تو پھر آپ کون ہیں؟ کیا آپ الیاس ہیں؟“اُس نے جواب دیا، ”نہیں، مَیں وہ نہیں ہوں۔“اُنہوں نے سوال کیا، ”کیا آپ آنے والا نبی ہیں؟“اُس نے کہا، ”نہیں۔“
22. ”تو پھر ہمیں بتائیں کہ آپ کون ہیں؟ جنہوں نے ہمیں بھیجا ہے اُنہیں ہمیں کوئی نہ کوئی جواب دینا ہے۔ آپ خود اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں؟“
23. یحییٰ نے یسعیاہ نبی کا حوالہ دے کر جواب دیا، ”مَیں ریگستان میں وہ آواز ہوں جو پکار رہی ہے، رب کا راستہ سیدھا بناؤ۔“
24. بھیجے گئے لوگ فریسی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔
25. اُنہوں نے پوچھا، ”اگر آپ نہ مسیح ہیں، نہ الیاس یا آنے والا نبی تو پھر آپ بپتسمہ کیوں دے رہے ہیں؟“
26. یحییٰ نے جواب دیا، ”مَیں تو پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں، لیکن تمہارے درمیان ہی ایک کھڑا ہے جس کو تم نہیں جانتے۔
27. وہی میرے بعد آنے والا ہے اور مَیں اُس کے جوتوں کے تسمے بھی کھولنے کے لائق نہیں۔“