16. لیکن پانچوں اموری بادشاہ فرار ہو کر مقیدہ کے ایک غار میں چھپ گئے تھے۔
17. یشوع کو اطلاع دی گئی
18. تو اُس نے کہا، ”کچھ بڑے بڑے پتھر لُڑھکا کر غار کا منہ بند کرنا، اور کچھ آدمی اُس کی پہرا داری کریں۔
19. لیکن باقی لوگ نہ رُکیں بلکہ دشمنوں کا تعاقب کر کے پیچھے سے اُنہیں مارتے جائیں۔ اُنہیں دوبارہ اپنے شہروں میں داخل ہونے کا موقع مت دینا، کیونکہ رب آپ کے خدا نے اُنہیں آپ کے ہاتھ میں کر دیا ہے۔“
20. چنانچہ یشوع اور باقی اسرائیلی اُنہیں ہلاک کرتے رہے، اور کم ہی اپنے شہروں کی فصیل میں داخل ہو سکے۔
21. اِس کے بعد پوری فوج صحیح سلامت یشوع کے پاس مقیدہ کی لشکرگاہ میں واپس پہنچ گئی۔اب سے کسی میں بھی اسرائیلیوں کو دھمکی دینے کی جرأت نہ رہی۔
22. پھر یشوع نے کہا، ”غار کے منہ کو کھول کر یہ پانچ بادشاہ میرے پاس نکال لائیں۔“
23. لوگ غار کو کھول کر یروشلم، حبرون، یرموت، لکیس اور عجلون کے بادشاہوں کو یشوع کے پاس نکال لائے۔
24. یشوع نے اسرائیل کے مردوں کو بُلا کر اپنے ساتھ کھڑے فوجی افسروں سے کہا، ”اِدھر آ کر اپنے پیروں کو بادشاہوں کی گردنوں پر رکھ دیں۔“ افسروں نے ایسا ہی کیا۔
25. پھر یشوع نے اُن سے کہا، ”نہ ڈریں اور نہ حوصلہ ہاریں۔ مضبوط اور دلیر ہوں۔ رب یہی کچھ اُن تمام دشمنوں کے ساتھ کرے گا جن سے آپ لڑیں گے۔“
26. یہ کہہ کر اُس نے بادشاہوں کو ہلاک کر کے اُن کی لاشیں پانچ درختوں سے لٹکا دیں۔ وہاں وہ شام تک لٹکی رہیں۔
27. جب سورج ڈوبنے لگا تو لوگوں نے یشوع کے حکم پر لاشیں اُتار کر اُس غار میں پھینک دیں جس میں بادشاہ چھپ گئے تھے۔ پھر اُنہوں نے غار کے منہ کو بڑے بڑے پتھروں سے بند کر دیا۔ یہ پتھر آج تک وہاں پڑے ہوئے ہیں۔
28. اُس دن مقیدہ یشوع کے قبضے میں آ گیا۔ اُس نے پورے شہر کو تلوار سے رب کے لئے مخصوص کر کے تباہ کر دیا۔ بادشاہ سمیت سب ہلاک ہوئے اور ایک بھی نہ بچا۔ شہر کے بادشاہ کے ساتھ اُس نے وہ سلوک کیا جو اُس نے یریحو کے بادشاہ کے ساتھ کیا تھا۔
29. پھر یشوع نے تمام اسرائیلیوں کے ساتھ وہاں سے آگے نکل کر لِبناہ پر حملہ کیا۔