17. کہنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے ابراہیم سے عہد باندھ کر اُسے قائم رکھنے کا وعدہ کیا۔ شریعت جو 430 سال کے بعد دی گئی اِس عہد کو رد کر کے اللہ کا وعدہ منسوخ نہیں کر سکتی۔
18. کیونکہ اگر ابراہیم کی میراث شریعت کی پیروی کرنے سے ملتی تو پھر وہ اللہ کے وعدے پر منحصر نہ ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ اللہ نے اِسے اپنے وعدے کی بنا پر ابراہیم کو دے دیا۔
19. تو پھر شریعت کا کیا مقصد تھا؟ اُسے اِس لئے وعدے کے علاوہ دیا گیا تاکہ لوگوں کے گناہوں کو ظاہر کرے۔ اور اُسے اُس وقت تک قائم رہنا تھا جب تک ابراہیم کی وہ اولاد نہ آ جاتی جس سے وعدہ کیا گیا تھا۔ اللہ نے اپنی شریعت فرشتوں کے وسیلے سے موسیٰ کو دے دی جو اللہ اور لوگوں کے بیچ میں درمیانی رہا۔
20. اب درمیانی اُس وقت ضروری ہوتا ہے جب ایک سے زیادہ پارٹیوں میں اتفاق کرانے کی ضرورت ہے۔ لیکن اللہ جو ایک ہی ہے اُس نے درمیانی استعمال نہ کیا جب اُس نے ابراہیم سے وعدہ کیا۔
21. تو کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت اللہ کے وعدوں کے خلاف ہے؟ ہرگز نہیں! اگر انسان کو ایسی شریعت ملی ہوتی جو زندگی دلا سکتی تو پھر سب اُس کی پیروی کرنے سے راست باز ٹھہرتے۔
22. لیکن کلامِ مُقدّس فرماتا ہے کہ پوری دنیا گناہ کے قبضے میں ہے۔ چنانچہ ہمیں اللہ کا وعدہ صرف عیسیٰ مسیح پر ایمان لانے سے حاصل ہوتا ہے۔
23. اِس سے پہلے کہ ایمان کی یہ راہ دست یاب ہوئی شریعت نے ہمیں قید کر کے محفوظ رکھا تھا۔ اِس قید میں ہم اُس وقت تک رہے جب تک ایمان کی راہ ظاہر نہیں ہوئی تھی۔
24. یوں شریعت کو ہماری تربیت کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ اُسے ہمیں مسیح تک پہنچانا تھا تاکہ ہمیں ایمان سے راست باز قرار دیا جائے۔
25. اب چونکہ ایمان کی راہ آ گئی ہے اِس لئے ہم شریعت کی تربیت کے تحت نہیں رہے۔
26. کیونکہ مسیح عیسیٰ پر ایمان لانے سے آپ سب اللہ کے فرزند بن گئے ہیں۔
27. آپ میں سے جتنوں کو مسیح میں بپتسمہ دیا گیا اُنہوں نے مسیح کو پہن لیا۔
28. اب نہ یہودی رہا نہ غیریہودی، نہ غلام رہا نہ آزاد، نہ مرد رہا نہ عورت۔ مسیح عیسیٰ میں آپ سب کے سب ایک ہیں۔
29. شرط یہ ہے کہ آپ مسیح کے ہوں۔ تب آپ ابراہیم کی اولاد اور اُن چیزوں کے وارث ہیں جن کا وعدہ اللہ نے کیا ہے۔