8. اُن کی لاشیں اُس بڑے شہر کی سڑک پر پڑی رہیں گی جس کا علامتی نام سدوم اور مصر ہے۔ وہاں اُن کا آقا بھی مصلوب ہوا تھا۔
9. اور ساڑھے تین دنوں کے دوران ہر اُمّت، قبیلے، زبان اور قوم کے لوگ اِن لاشوں کو گھور کر دیکھیں گے اور اِنہیں دفن کرنے نہیں دیں گے۔
10. زمین کے باشندے اُن کی وجہ سے مسرور ہوں گے اور خوشی منا کر ایک دوسرے کو تحفے بھیجیں گے، کیونکہ اِن دو نبیوں نے زمین پر رہنے والوں کو کافی ایذا پہنچائی تھی۔
11. لیکن اِن ساڑھے تین دنوں کے بعد اللہ نے اُن میں زندگی کا دم پھونک دیا، اور وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے۔ جو اُنہیں دیکھ رہے تھے وہ سخت دہشت زدہ ہوئے۔
12. پھر اُنہوں نے آسمان سے ایک اونچی آواز سنی جس نے اُن سے کہا، ”یہاں اوپر آؤ!“ اور اُن کے دشمنوں کے دیکھتے دیکھتے دونوں ایک بادل میں آسمان پر چلے گئے۔
13. اُسی وقت ایک شدید زلزلہ آیا اور شہر کا دسواں حصہ گر کر تباہ ہو گیا۔ 7,000 افراد اُس کی زد میں آ کر مر گئے۔ بچے ہوئے لوگوں میں دہشت پھیل گئی اور وہ آسمان کے خدا کو جلال دینے لگے۔
14. دوسرا افسوس گزر گیا، لیکن اب تیسرا افسوس جلد ہونے والا ہے۔
15. ساتویں فرشتے نے اپنے تُرم میں پھونک ماری۔ اِس پر آسمان پر سے اونچی آوازیں سنائی دیں جو کہہ رہی تھیں، ”زمین کی بادشاہی ہمارے آقا اور اُس کے مسیح کی ہو گئی ہے۔ وہی ازل سے ابد تک حکومت کرے گا۔“
16. اور اللہ کے تخت کے سامنے بیٹھے 24 بزرگوں نے گر کر اللہ کو سجدہ کیا
17. اور کہا، ”اے رب قادرِ مطلق خدا، ہم تیرا شکر کرتے ہیں، تُو جو ہے اور جو تھا۔ کیونکہ تُو اپنی عظیم قدرت کو کام میں لا کر حکومت کرنے لگا ہے۔
18. قومیں غصے میں آئیں تو تیرا غضب نازل ہوا۔ اب مُردوں کی عدالت کرنے اور اپنے خادموں کو اجر دینے کا وقت آ گیا ہے۔ ہاں، تیرے نبیوں، مُقدّسین اور تیرا خوف ماننے والوں کو اجر ملے گا، خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے۔ اب وہ وقت بھی آ گیا ہے کہ زمین کو تباہ کرنے والوں کو تباہ کیا جائے۔“