22. کہ مقامی عبادت خانے کا ایک راہنما اُس کے پاس آیا۔ اُس کا نام یائیر تھا۔ عیسیٰ کو دیکھ کر وہ اُس کے پاؤں میں گر گیا
23. اور بہت منت کرنے لگا، ”میری چھوٹی بیٹی مرنے والی ہے، براہِ کرم آ کر اُس پر اپنے ہاتھ رکھیں تاکہ وہ شفا پا کر زندہ رہے۔“
24. چنانچہ عیسیٰ اُس کے ساتھ چل پڑا۔ ایک بڑی بھیڑ اُس کے پیچھے لگ گئی اور لوگ اُسے گھیر کر ہر طرف سے دبانے لگے۔
25. ہجوم میں ایک عورت تھی جو بارہ سال سے خون بہنے کے مرض سے رِہائی نہ پا سکی تھی۔
26. بہت ڈاکٹروں سے اپنا علاج کروا کروا کر اُسے کئی طرح کی مصیبت جھیلنی پڑی تھی اور اِتنے میں اُس کے تمام پیسے بھی خرچ ہو گئے تھے۔ توبھی کوئی فائدہ نہ ہوا تھا بلکہ اُس کی حالت مزید خراب ہوتی گئی۔
27. عیسیٰ کے بارے میں سن کر وہ بھیڑ میں شامل ہو گئی تھی۔ اب پیچھے سے آ کر اُس نے اُس کے لباس کو چھوا،
28. کیونکہ اُس نے سوچا، ”اگر مَیں صرف اُس کے لباس کو ہی چھو لوں تو مَیں شفا پا لوں گی۔“
29. خون بہنا فوراً بند ہو گیا اور اُس نے اپنے جسم میں محسوس کیا کہ مجھے اِس اذیت ناک حالت سے رِہائی مل گئی ہے۔
30. لیکن اُسی لمحے عیسیٰ کو خود محسوس ہوا کہ مجھ میں سے توانائی نکلی ہے۔ اُس نے مُڑ کر پوچھا، ”کس نے میرے کپڑوں کو چھوا ہے؟“
31. اُس کے شاگردوں نے جواب دیا، ”آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ ہجوم آپ کو گھیر کر دبا رہا ہے۔ تو پھر آپ کس طرح پوچھ سکتے ہیں کہ کس نے مجھے چھوا؟“