2. اُس نے اُنہیں بہت سی باتیں تمثیلوں میں سکھائیں۔ اُن میں سے ایک یہ تھی:
3. ”سنو! ایک کسان بیج بونے کے لئے نکلا۔
4. جب بیج اِدھر اُدھر بکھر گیا تو کچھ دانے راستے پر گرے اور پرندوں نے آ کر اُنہیں چگ لیا۔
5. کچھ پتھریلی زمین پر گرے جہاں مٹی کی کمی تھی۔ وہ جلد اُگ آئے کیونکہ مٹی گہری نہیں تھی۔
6. لیکن جب سورج نکلا تو پودے جُھلس گئے اور چونکہ وہ جڑ نہ پکڑ سکے اِس لئے سوکھ گئے۔
7. کچھ دانے خود رَو کانٹےدار پودوں کے درمیان بھی گرے۔ وہاں وہ اُگنے تو لگے، لیکن خود رَو پودوں نے ساتھ ساتھ بڑھ کر اُنہیں پھلنے پھولنے کی جگہ نہ دی۔ چنانچہ وہ بھی ختم ہو گئے اور پھل نہ لا سکے۔
8. لیکن ایسے دانے بھی تھے جو زرخیز زمین میں گرے۔ وہاں وہ پھوٹ نکلے اور بڑھتے بڑھتے تیس گُنا، ساٹھ گُنا بلکہ سَو گُنا تک پھل لائے۔“
9. پھر اُس نے کہا، ”جو سن سکتا ہے وہ سن لے!“
10. جب وہ اکیلا تھا تو جو لوگ اُس کے ارد گرد جمع تھے اُنہوں نے بارہ شاگردوں سمیت اُس سے پوچھا کہ اِس تمثیل کا کیا مطلب ہے؟
11. اُس نے جواب دیا، ”تم کو تو اللہ کی بادشاہی کا بھید سمجھنے کی لیاقت دی گئی ہے۔ لیکن مَیں اِس دائرے سے باہر کے لوگوں کو ہر بات سمجھانے کے لئے تمثیلیں استعمال کرتا ہوں
12. تاکہ پاک کلام پورا ہو جائے کہ’وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے مگر کچھ نہیں جانیں گے،وہ اپنے کانوں سے سنیں گے مگر کچھ نہیں سمجھیں گے،ایسا نہ ہو کہ وہ میری طرف رجوع کریںاور اُنہیں معاف کر دیا جائے‘۔“
13. پھر عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”کیا تم یہ تمثیل نہیں سمجھتے؟ تو پھر باقی تمام تمثیلیں کس طرح سمجھ پاؤ گے؟
14. بیج بونے والا اللہ کا کلام بو دیتا ہے۔
15. راستے پر گرنے والے دانے وہ لوگ ہیں جو کلام کو سنتے تو ہیں، لیکن پھر ابلیس فوراً آ کر وہ کلام چھین لیتا ہے جو اُن میں بویا گیا ہے۔
16. پتھریلی زمین پر گرنے والے دانے وہ لوگ ہیں جو کلام سنتے ہی اُسے خوشی سے قبول تو کر لیتے ہیں،
17. لیکن وہ جڑ نہیں پکڑتے اور اِس لئے زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتے۔ جوں ہی وہ کلام پر ایمان لانے کے باعث کسی مصیبت یا ایذا رسانی سے دوچار ہو جائیں، تو وہ برگشتہ ہو جاتے ہیں۔
18. خود رَو کانٹےدار پودوں کے درمیان گرے ہوئے دانے وہ لوگ ہیں جو کلام سنتے تو ہیں،
19. لیکن پھر روزمرہ کی پریشانیاں، دولت کا فریب اور دیگر چیزوں کا لالچ کلام کو پھلنے پھولنے نہیں دیتے۔ نتیجے میں وہ پھل لانے تک نہیں پہنچتا۔