2. وہ اُسے باندھ کر وہاں سے لے گئے اور رومی گورنر پیلاطس کے حوالے کر دیا۔
3. جب یہوداہ نے جس نے اُسے دشمن کے حوالے کر دیا تھا دیکھا کہ اُس پر سزائے موت کا فتویٰ دے دیا گیا ہے تو اُس نے پچھتا کر چاندی کے 30 سِکے راہنما اماموں اور قوم کے بزرگوں کو واپس کر دیئے۔
4. اُس نے کہا، ”مَیں نے گناہ کیا ہے، کیونکہ ایک بےقصور آدمی کو سزائے موت دی گئی ہے اور مَیں ہی نے اُسے آپ کے حوالے کیا ہے۔“اُنہوں نے جواب دیا، ”ہمیں کیا! یہ تیرا مسئلہ ہے۔“
5. یہوداہ چاندی کے سِکے بیت المُقدّس میں پھینک کر چلا گیا۔ پھر اُس نے جا کر پھانسی لے لی۔
6. راہنما اماموں نے سِکوں کو جمع کر کے کہا، ”شریعت یہ پیسے بیت المُقدّس کے خزانے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیتی، کیونکہ یہ خوں ریزی کا معاوضہ ہے۔“
7. آپس میں مشورہ کرنے کے بعد اُنہوں نے کمہار کا کھیت خریدنے کا فیصلہ کیا تاکہ پردیسیوں کو دفنانے کے لئے جگہ ہو۔
8. اِس لئے یہ کھیت آج تک خون کا کھیت کہلاتا ہے۔
9. یوں یرمیاہ نبی کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی کہ ”اُنہوں نے چاندی کے 30 سِکے لئے یعنی وہ رقم جو اسرائیلیوں نے اُس کے لئے لگائی تھی۔
10. اِن سے اُنہوں نے کمہار کا کھیت خرید لیا، بالکل ایسا جس طرح رب نے مجھے حکم دیا تھا۔“
11. اِتنے میں عیسیٰ کو رومی گورنر پیلاطس کے سامنے پیش کیا گیا۔ اُس نے اُس سے پوچھا، ”کیا تم یہودیوں کے بادشاہ ہو؟“عیسیٰ نے جواب دیا، ”جی، آپ خود کہتے ہیں۔“
12. لیکن جب راہنما اماموں اور قوم کے بزرگوں نے اُس پر الزام لگائے تو عیسیٰ خاموش رہا۔
13. چنانچہ پیلاطس نے دوبارہ اُس سے سوال کیا، ”کیا تم یہ تمام الزامات نہیں سن رہے جو تم پر لگائے جا رہے ہیں؟“
14. لیکن عیسیٰ نے ایک الزام کا بھی جواب نہ دیا، اِس لئے گورنر نہایت حیران ہوا۔
15. اُن دنوں یہ رواج تھا کہ گورنر ہر سال فسح کی عید پر ایک قیدی کو آزاد کر دیتا تھا۔ یہ قیدی ہجوم سے منتخب کیا جاتا تھا۔
16. اُس وقت جیل میں ایک بدنام قیدی تھا۔ اُس کا نام برابا تھا۔
17. چنانچہ جب ہجوم جمع ہوا تو پیلاطس نے اُس سے پوچھا، ”تم کیا چاہتے ہو؟ مَیں برابا کو آزاد کروں یا عیسیٰ کو جو مسیح کہلاتا ہے؟“
18. وہ تو جانتا تھا کہ اُنہوں نے عیسیٰ کو صرف حسد کی بنا پر اُس کے حوالے کیا ہے۔
19. جب پیلاطس یوں عدالت کے تخت پر بیٹھا تھا تو اُس کی بیوی نے اُسے پیغام بھیجا، ”اِس بےقصور آدمی کو ہاتھ نہ لگائیں، کیونکہ مجھے پچھلی رات اِس کے باعث خواب میں شدید تکلیف ہوئی۔“