24. لیکن مَیں تم کو دکھاتا ہوں کہ ابنِ آدم کو واقعی دنیا میں گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے۔“ یہ کہہ کر وہ مفلوج سے مخاطب ہوا، ”اُٹھ، اپنی چارپائی اُٹھا کر اپنے گھر چلا جا۔“
25. لوگوں کے دیکھتے دیکھتے وہ آدمی کھڑا ہوا اور اپنی چارپائی اُٹھا کر اللہ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے اپنے گھر چلا گیا۔
26. یہ دیکھ کر سب سخت حیرت زدہ ہوئے اور اللہ کی تمجید کرنے لگے۔ اُن پر خوف چھا گیا اور وہ کہہ اُٹھے، ”آج ہم نے ناقابلِ یقین باتیں دیکھی ہیں۔“
27. اِس کے بعد عیسیٰ نکل کر ایک ٹیکس لینے والے کے پاس سے گزرا جو اپنی چوکی پر بیٹھا تھا۔ اُس کا نام لاوی تھا۔ اُسے دیکھ کر عیسیٰ نے کہا، ”میرے پیچھے ہو لے۔“
28. وہ اُٹھا اور سب کچھ چھوڑ کر اُس کے پیچھے ہو لیا۔
29. بعد میں اُس نے اپنے گھر میں عیسیٰ کی بڑی ضیافت کی۔ بہت سے ٹیکس لینے والے اور دیگر مہمان اِس میں شریک ہوئے۔
30. یہ دیکھ کر کچھ فریسیوں اور اُن سے تعلق رکھنے والے شریعت کے عالِموں نے عیسیٰ کے شاگردوں سے شکایت کی۔ اُنہوں نے کہا، ”تم ٹیکس لینے والوں اور گناہ گاروں کے ساتھ کیوں کھاتے پیتے ہو؟“
31. عیسیٰ نے جواب دیا، ”صحت مندوں کو ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ مریضوں کو۔
32. مَیں راست بازوں کو نہیں بلکہ گناہ گاروں کو بُلانے آیا ہوں تاکہ وہ توبہ کریں۔“
33. کچھ لوگوں نے عیسیٰ سے ایک اَور سوال پوچھا، ”یحییٰ کے شاگرد اکثر روزہ رکھتے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ وہ دعا بھی کرتے رہتے ہیں۔ فریسیوں کے شاگرد بھی اِسی طرح کرتے ہیں۔ لیکن آپ کے شاگرد کھانے پینے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔“