39. پھر وہ شہر سے نکل کر معمول کے مطابق زیتون کے پہاڑ کی طرف چل دیا۔ اُس کے شاگرد اُس کے پیچھے ہو لئے۔
40. وہاں پہنچ کر اُس نے اُن سے کہا، ”دعا کرو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو۔“
41. پھر وہ اُنہیں چھوڑ کر کچھ آگے نکلا، تقریباً اِتنے فاصلے پر جتنی دُور تک پتھر پھینکا جا سکتا ہے۔ وہاں وہ جھک کر دعا کرنے لگا،
42. ”اے باپ، اگر تُو چاہے تو یہ پیالہ مجھ سے ہٹا لے۔ لیکن میری نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو۔“
43. اُس وقت ایک فرشتے نے آسمان پر سے اُس پر ظاہر ہو کر اُس کو تقویت دی۔
44. وہ سخت پریشان ہو کر زیادہ دل سوزی سے دعا کرنے لگا۔ ساتھ ساتھ اُس کا پسینہ خون کی بوندوں کی طرح زمین پر ٹپکنے لگا۔
45. جب وہ دعا سے فارغ ہو کر کھڑا ہوا اور شاگردوں کے پاس واپس آیا تو دیکھا کہ وہ غم کے مارے سو گئے ہیں۔
46. اُس نے اُن سے کہا، ”تم کیوں سو رہے ہو؟ اُٹھ کر دعا کرتے رہو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو۔“
47. وہ ابھی یہ بات کر ہی رہا تھا کہ ایک ہجوم آ پہنچا جس کے آگے آگے یہوداہ چل رہا تھا۔ وہ عیسیٰ کو بوسہ دینے کے لئے اُس کے پاس آیا۔
48. لیکن اُس نے کہا، ”یہوداہ، کیا تُو ابنِ آدم کو بوسہ دے کر دشمن کے حوالے کر رہا ہے؟“
49. جب اُس کے ساتھیوں نے بھانپ لیا کہ اب کیا ہونے والا ہے تو اُنہوں نے کہا، ”خداوند، کیا ہم تلوار چلائیں؟“
50. اور اُن میں سے ایک نے اپنی تلوار سے امامِ اعظم کے غلام کا دہنا کان اُڑا دیا۔
51. لیکن عیسیٰ نے کہا، ”بس کر!“ اُس نے غلام کا کان چھو کر اُسے شفا دی۔
52. پھر وہ اُن راہنما اماموں، بیت المُقدّس کے پہرے داروں کے افسروں اور بزرگوں سے مخاطب ہوا جو اُس کے پاس آئے تھے، ”کیا مَیں ڈاکو ہوں کہ تم تلواریں اور لاٹھیاں لئے میرے خلاف نکلے ہو؟
53. مَیں تو روزانہ بیت المُقدّس میں تمہارے پاس تھا، مگر تم نے وہاں مجھے ہاتھ نہیں لگایا۔ لیکن اب یہ تمہارا وقت ہے، وہ وقت جب تاریکی حکومت کرتی ہے۔“
54. پھر وہ اُسے گرفتار کر کے امامِ اعظم کے گھر لے گئے۔ پطرس کچھ فاصلے پر اُن کے پیچھے پیچھے وہاں پہنچ گیا۔