1. ایک دن یرُبعل یعنی جدعون کا بیٹا ابی مَلِک اپنے ماموؤں اور ماں کے باقی رشتے داروں سے ملنے کے لئے سِکم گیا۔ اُس نے اُن سے کہا،
2. ”سِکم شہر کے تمام باشندوں سے پوچھیں، کیا آپ اپنے آپ پر جدعون کے 70 بیٹوں کی حکومت زیادہ پسند کریں گے یا ایک ہی شخص کی؟ یاد رہے کہ مَیں آپ کا خونی رشتے دار ہوں!“
3. ابی مَلِک کے ماموؤں نے سِکم کے تمام باشندوں کے سامنے یہ باتیں دہرائیں۔ سِکم کے لوگوں نے سوچا، ”ابی مَلِک ہمارا بھائی ہے“ اِس لئے وہ اُس کے پیچھے لگ گئے۔
4. اُنہوں نے اُسے بعل بریت دیوتا کے مندر سے چاندی کے 70 سِکے بھی دے دیئے۔اِن پیسوں سے ابی مَلِک نے اپنے ارد گرد آوارہ اور بدمعاش آدمیوں کا گروہ جمع کیا۔
5. اُنہیں اپنے ساتھ لے کر وہ عُفرہ پہنچا جہاں باپ کا خاندان رہتا تھا۔ وہاں اُس نے اپنے تمام بھائیوں یعنی جدعون کے 70 بیٹوں کو ایک ہی پتھر پر قتل کر دیا۔ صرف یوتام جو جدعون کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا کہیں چھپ کر بچ نکلا۔
6. اِس کے بعد سِکم اور بیت مِلّو کے تمام لوگ اُس بلوط کے سائے میں جمع ہوئے جو سِکم کے ستون کے پاس تھا۔ وہاں اُنہوں نے ابی مَلِک کو اپنا بادشاہ مقرر کیا۔
7. جب یوتام کو اِس کی اطلاع ملی تو وہ گرزیم پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا اور اونچی آواز سے چلّایا، ”اے سِکم کے باشندو، سنیں میری بات! سنیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ اللہ آپ کی بھی سنے۔
8. ایک دن درختوں نے فیصلہ کیا کہ ہم پر کوئی بادشاہ ہونا چاہئے۔ وہ اُسے چننے اور مسح کرنے کے لئے نکلے۔ پہلے اُنہوں نے زیتون کے درخت سے بات کی، ’ہمارے بادشاہ بن جائیں!‘
9. لیکن زیتون کے درخت نے جواب دیا، ’کیا مَیں اپنا تیل پیدا کرنے سے باز آؤں جس کی اللہ اور انسان اِتنی قدر کرتے ہیں تاکہ درختوں پر حکومت کروں؟ ہرگز نہیں!‘
10. اِس کے بعد درختوں نے انجیر کے درخت سے بات کی، ’آئیں، ہمارے بادشاہ بن جائیں!‘
11. لیکن انجیر کے درخت نے جواب دیا، ’کیا مَیں اپنا میٹھا اور اچھا پھل لانے سے باز آؤں تاکہ درختوں پر حکومت کروں؟ ہرگز نہیں!‘
12. پھر درختوں نے انگور کی بیل سے بات کی، ’آئیں، ہمارے بادشاہ بن جائیں!‘