15. جدعون اُن کے پاس گیا اور کہا، ”دیکھو، یہ ہیں زبح اور ضلمُنّع! تم نے اِن ہی کی وجہ سے میرا مذاق اُڑا کر کہا تھا کہ ہم آپ کے تھکے ہارے فوجیوں کو روٹی کیوں دیں؟ کیا آپ زبح اور ضلمُنّع کو پکڑ چکے ہیں کہ ہم ایسا کریں؟“
16. پھر جدعون نے شہر کے بزرگوں کو گرفتار کر کے اُنہیں کانٹےدار جھاڑیوں اور اونٹ کٹاروں سے گاہ کر سبق سکھایا۔
17. پھر وہ فنوایل گیا اور وہاں کا بُرج گرا کر شہر کے مردوں کو مار ڈالا۔
18. اِس کے بعد جدعون زبح اور ضلمُنّع سے مخاطب ہوا۔ اُس نے پوچھا، ”اُن آدمیوں کا حُلیہ کیسا تھا جنہیں تم نے تبور پہاڑ پر قتل کیا؟“اُنہوں نے جواب دیا، ”وہ آپ جیسے تھے، ہر ایک شہزادہ لگ رہا تھا۔“
19. جدعون بولا، ”وہ میرے سگے بھائی تھے۔ رب کی حیات کی قَسم، اگر تم اُن کو زندہ چھوڑتے تو مَیں تمہیں ہلاک نہ کرتا۔“
20. پھر وہ اپنے پہلوٹھے یتر سے مخاطب ہو کر بولا، ”اِن کو مار ڈالو!“ لیکن یتر اپنی تلوار میان سے نکالنے سے جھجکا، کیونکہ وہ ابھی بچہ تھا اور ڈرتا تھا۔
21. تب زبح اور ضلمُنّع نے کہا، ”آپ ہی ہمیں مار دیں! کیونکہ جیسا آدمی ویسی اُس کی طاقت!“ جدعون نے کھڑے ہو کر اُنہیں تلوار سے مار ڈالا اور اُن کے اونٹوں کی گردنوں پر لگے تعویذ اُتار کر اپنے پاس رکھے۔
22. اسرائیلیوں نے جدعون کے پاس آ کر کہا، ”آپ نے ہمیں مِدیانیوں سے بچا لیا ہے، اِس لئے ہم پر حکومت کریں، آپ، آپ کے بعد آپ کا بیٹا اور اُس کے بعد آپ کا پوتا۔“