1. لیکن افرائیم کے مردوں نے شکایت کی، ”آپ نے ہم سے کیسا سلوک کیا؟ آپ نے ہمیں کیوں نہیں بُلایا جب مِدیان سے لڑنے گئے؟“ ایسی باتیں کرتے کرتے اُنہوں نے جدعون کے ساتھ سخت بحث کی۔
2. لیکن جدعون نے جواب دیا، ”کیا آپ مجھ سے کہیں زیادہ کامیاب نہ ہوئے؟ اور جو انگور فصل جمع کرنے کے بعد افرائیم کے باغوں میں رہ جاتے ہیں کیا وہ میرے چھوٹے خاندان ابی عزر کی پوری فصل سے زیادہ نہیں ہوتے؟
3. اللہ نے تو مِدیان کے سرداروں عوریب اور زئیب کو آپ کے حوالے کر دیا۔ اِس کی نسبت مجھ سے کیا کامیابی حاصل ہوئی ہے؟“ یہ سن کر افرائیم کے مردوں کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔
4. جدعون اپنے 300 مردوں سمیت دریائے یردن کو پار کر چکا تھا۔ دشمن کا تعاقب کرتے کرتے وہ تھک گئے تھے۔
5. اِس لئے جدعون نے قریب کے شہر سُکات کے باشندوں سے گزارش کی، ”میرے فوجیوں کو کچھ روٹی دے دیں۔ وہ تھک گئے ہیں، کیونکہ ہم مِدیانی سردار زبح اور ضلمُنّع کا تعاقب کر رہے ہیں۔“
6. لیکن سُکات کے بزرگوں نے جواب دیا، ”ہم آپ کے فوجیوں کو روٹی کیوں دیں؟ کیا آپ زبح اور ضلمُنّع کو پکڑ چکے ہیں کہ ہم ایسا کریں؟“
7. یہ سن کر جدعون نے کہا، ”جوں ہی رب اِن دو سرداروں زبح اور ضلمُنّع کو میرے ہاتھ میں کر دے گا مَیں تم کو ریگستان کی کانٹےدار جھاڑیوں اور اونٹ کٹاروں سے گاہ کر تباہ کر دوں گا۔“